• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب پڑھنے والوں کو عید مبارک ہو۔میری بات میں نہ مبالغہ ہے نہ مغالطہ ، ہمیں 8گھنٹےمنا سا چاند نظر آگیا ہمارے علماء کا ایک دن اجتماع اور ضیافت پھر بھی قائم رہی اور انہوں نے جھٹ سے اعلان کروادیا کہ لاہور میں چاندنظر آگیا۔ میں پھر اٹلس کھول کے بیٹھ گئی کہ سعودی عرب کا چاند والا آسمان، پاکستان سے کتنی دور ہے اور کیا یورپ اور امریکہ کا آسمان ٹرمپ نے الگ کروالیا ہے۔ ویسے پورے ر مضان یہ موضوع زیر بحث علماء کے درمیان رہا کہ دوسری شادی کی اجازت خاتون دیگی کہ علیحدگی لے گی۔جس کے جوجی میں آئی کہہ بیٹھے۔میں ہر روز شام4بجے آکر ٹی وی اس لئے لگاتی تھی کہ حفیظ جالندھری،مظفر وارثی،حفیظ تائب، سیف زلفی یہ تو لاہور کے ہیں۔کراچی کے بھی ممتاز نعت گو تھےان پر توجہ نہیں دی گئی۔ ایک رجحان بہت غلط ہے کہ نوجوانوں کا جو مقابلہ تھا، اسمیں بھی فلمی گانوں کی دھنوں پر نعتیں پڑھی گئیں، سارے میڈیا والے احترام رمضان کو کار گزاری سمجھ کر ، ٹی وی ایکٹروں کو بلاتے رہے حالانکہ انکے توڈرامے روز آتے ہیں۔ پڑھی لکھی خواتین اور حضرات کی جانب سےعالمانہ گفتگو پر زور دیں مگر جہاں حکومت والےآئے دن علماء اور نوجوانوں سے آدھا گھنٹہ بے ساختہ خطاب کرتے ہیں اور اب تو کمال دوستی یہ ہوگیا کہ جن ملکوں سے سفارتی تعلقات سطحی سطح پر ہیں انہیں بھی محبت سے عید کی مبارکباد دے رہے ہیں۔ میری انڈونیشیاکی شاعرہ دوست سے زوم پہ بات ہورہی تھی اور وہ یہ سنکر حیران تھی کہ ہمارے ملک میں آئے دن پانچ چھٹیاں ہوتی رہتی ہیں۔ مذہب کے نام پر مختلف جلوس نکلتے اور دیگیں پکتی ہیں، میری دوست نے حیران ہوکرکہا ’’ہم بھی تو مسلمان ہیں، جلوس نہیں کرتے ۔ مسجدوں اور یتیم خانوں میں حسب توفیق کھانا یا رقم بھجوا دیتے ہیں۔ یہی مناظر میں سینٹرل ایشین ممالک میں دیکھ کر آئی ہوں۔ وہاں لوگ نماز بھی پڑھتے ، بار میں جاتے اور جہاں جگہ مناسب ہو بیلے ڈانس بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کے ہر دور دراز دیہات میں شادی پہ موبائل ،ڈالر اور یورو کے علاوہ ریال برات میں لٹائے جاتے ہیں سارے قریبی دیہاتوں کے علاوہ سینکڑوں لوگ دونوں دن برات اور ولیمے میں شرکت کرتے اور میزبان پہ احسان رکھتےہیں کہ ہم اپنے کام چھوڑ کر تمہاری برادری میں شریک ہوئے۔

انہی عید کے نام پہ کی گئی چھٹیوں سے ایک دن پہلے دو حیران کن سانحے ہوئے ۔ایک تو کراچی میں آئل ریفائنری کے پاس آگ لگی۔ پندرہ گھنٹے تک کبھی ریت اور کبھی پانی سے بجھانے کی کوشش کی گئی مگر وہ عجیب اور نامعلوم جگہ سےنکل رہی ہے اور بجھ بھی نہیں رہی۔ دوسرےمیانمار اور تھائی لینڈمیں7.7ڈگری کے زلزلے نے سارے شہروں کو زمین میں دفن کردیا اور تھائی لینڈ سکائی سکر پیر کوتو ہم سب نے فلموں کے بھیانک منظر کی طرح دیکھا۔ سائنسدانوں اور زلزلوں کے ماہرین کی بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ سب کچھ منٹوں میں ہوگیا۔ مجھے فوراً مظہر السلام کا نیا ناول یاد آیا جس میں شیطان کو ایک بچے کے بیگ سے دیگر مقامات پر آفت وعذاب ڈھاتےہوا ، ایسے دکھایا ہے جیسے ایلس ان ونڈرلینڈ یا جادوئی کہا نیوں میں بیان ہوتا تھا۔ اب بھی جو بچے ہیں ، وہ بھی انگریزی اور اردو میں ان کہانیوں کو شوق سے پڑھتے ہیں۔ ان کا نیا روپ ہیری پورٹر میں خوب چلا۔ یہ ناول، بچوں کے کرداروں کے باوجود، بچے نہیں پڑھیں گے کہ ہر چوتھی لائن کسی بڑے فلاسفر، کسی صوفی اور کسی بڑے ادیب کی تحریر کا حوالہ ملتا ہے۔ مگر اختتام پڑھ کر تو مجھے بھی غصہ بھی آیا اور ہنسی بھی کہ وہ فرشتہ جسے خدا نے آگ سے بنایا۔ وہ دنیا بھر کے عذاب کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ عبداللہ( ہیروجو18سال کا ہے اور جس نے4سال کی عمر میں شیطان کانام سنا، محسوس بھی کیا) اکیلا شیطان کو چوہے کی کھڑکی میں بند کرکے مار دیتا ہے۔ کاش ایسا ہوسکتا اور سارے اسلامی ممالک حضرت عمرؓ کے زمانے کے ہوجاتے ۔

عید کے موقع پر سارے صفائی کرنے والوں سے پنجاب اور سندھ میںکام لیا گیا ہے جذبہ تواچھا ہے۔ مگر کیا آپ لوگ ایسٹر پر انکو عید کی طرح چھٹیاں دینگے۔ صفائی کی نیت اچھی ہے۔ مگر ٹیلی فون والے ہوں یا ڈھابوں پر پوریاں تلنے والے، انکے گھروں میں احساس محرومی اور یاسیت نہیں آنا چاہیے۔ اب ازالہ کیسے ہوکہ نہ لوگوں کی جیب اجازت دیتی ہے نہ حکومت کی۔ ویسے تینوں دن مجھے غصہ آتارہا کہ ہر ناشتے کے لئے ہجوم میں یا ٹیبل پہ کوئی خاتون بیٹھی نظر نہیں آئی۔ مجھے یاد ہے شام کو سموسوں کی دکانوں میں جب دوسموسے اور چٹنی کھاتے ہوئے مردوں کو دیکھتی، گاڑی روک کر پوچھتی آپ اکیلے کیوں کھا رہے ہیں، گھر لے جائیں، جواب ملتا، اجی گھر میں پانچ بچے، دواماں ابا اور بیوی کے علاوہ بھی کوئی اور ہوسکتا ہے۔ اتنے پیسے نہیں ہوتے، اپنا رانجھا راضی کرنے کے لئے 2روپے خرچ کرلیتے ہیں۔ مجھے خیال آیا، اب تو یہ بھی ممکن نہیں کہ اب تو سموسہ ہی60اور80روپے کا ہے۔ویسے ساری سرکار اور صدر، وزیر اعظم معاف فرمائیں، ان سب نے یتیموں سے لیکر غریب بچوں کو اپنے خوبصورت ڈرائنگ روم میں بٹھاکر سرکاری خرچے پہ روزہ افطار کروادیا۔ اس دفعہ یہ بھی ہوا کہ انگلستان کے بادشاہ اور غراتے ہوئے امریکی صدر نے بھی روزہ افطار کروایا اور مغرب کی اذان بھی کروائی ۔مگر اسرائیلی وزیر اعظم نے ان مقدس دنوں میں ڈرون حملوں میں بچوں کو نئے کپڑے بھی نہیں پہننے دیے۔

آجکل سارے میری عمر کے ادیب، بچپن اور ان دیہاتوں کو یاد کررہے ہیں جہاں تب بھی عورتیں ہی پانی بھرکر لاتی تھیں اور اب بھی صورت حال وہی ہے۔ یہ سب لوگ انتظار حسین کی کہانیوں پر معترض ہوتے تھے کہ وہ اپنا ماضی اور نانی اماں کے وسیلے سے اس جن کی کہانی بھی سناتے تھے کہ جسکی قید میں شہزادی ہوتی تھی ۔ اب وہ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ بلوچستان کی لڑکیاں، آج کل کے جن، زنداں میں ڈال رہے ہیں ۔ شاعری کےضمن میں بھی اتنی سی درخواست ہے کہ لائنیں توڑ کر لکھنا نثری نظم نہیں ہوتا اور غزل میں عشقیہ لفاظی میں یہ سمجھ لیں کہ اب چٹوں پر لکھ کر عشق کے زمانے گزر چکے ہیں۔ غزل میں بھی زندگی کے آشوب اور انسانیت کی جگہ حیوانیت جس دیدہ دلیری سے پھیلائی جارہی ہے۔ اس کا بیانیہ، انیس اشفاق اور اسد محمد خاں ایسے لکھتے ہیں کہ رلا دیتے ہیں۔ پھر بھی موقع ہے کہ کہوں’’ عید مبارک‘‘۔

تازہ ترین