• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کی حالیہ صورتحال پر ہر سچا پاکستانی پریشان ہے اور اس کی خواہش ہے کہ بلوچستان پر امن ہو جائے۔ میرے ایک کلاس فیلو بلوچستان میں بطور ڈی آئی جی پولیس طویل عرصے تک خدمات انجام دیتے رہے، میں نے ان سے بلوچستان کے مسئلے کا حل پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ تین باتوں پر عمل کر لیا جائے تو بلوچستان پرسکون ہو جائیگا، بلوچستان کے لوگ محب وطن پاکستانی ہیں مگر انکے کچھ مسائل ہیں، جس کا حل تین باتوں میں چھپا ہوا ہے۔

1۔ بلوچستان کے لوگ جنہیں ووٹ دیتے ہیں، انہی نمائندوں کو اسمبلیوں میں بیٹھنے کا حق دیا جائے، اس سلسلے میں نوابوں اور سرداروں کو زبردستی جتوانے کی پالیسی ترک کر دی جائے۔2۔ سیکورٹی فورسز ناکوں کی بجائے بیرکس میں چلی جائیں، ناکوں پر پولیس تعینات ہونی چاہئے۔3۔ بلوچستان میں چھوٹی صنعتیں لگائی جائیں تاکہ لوگوں کو روزگار مل سکے۔ بلوچستان اسمبلی میں حکومتی رکن فرح عظیم شاہ نے بلوچستان کا مقدمہ بڑے بھرپور انداز میں پیش کیا ہے، حکومتی رکن ہونے کے باوجود انہوں نے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی اور بلوچستان کے عوام کے حوالے سے کہا کہ انکا مسئلہ معاشی ہے، بلوچستان میں غربت اور بیروزگاری ہے۔ فرح عظیم شاہ نے جونہی بلوچ نوجوانوں کا مقدمہ پیش کیا تو وزیر اعلیٰ ناراض ہو گئے۔

طارق مسعود کھوسہ کا شمار دیانتدار افسروں میں ہوتا ہے، وہ پولیس سروس کے دوران بلوچ بیلٹ کے کئی اضلاع میں ایس پی رہے پھر بلوچستان کے آئی جی رہے، انہوں نے وفاق میں بھی کئی ذمہ دار حیثیتوں میں کام کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ماسٹر کرنے والے سابق پولیس افسر طارق کھوسہ نے حال ہی میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’ ہم سچ کا سامنا کیوں نہیں کرتے: ایک ایسا سیاسی بندوبست جس کو عوام کی اکثریت ناجائز سمجھتی ہو، اسے کبھی بھی عوام کا اعتماد حاصل نہیں ہو سکتا۔ کاشت کاری کا قانون بالکل سادہ ہے۔ جو کچھ بویا جائے گا وہی کاٹا جائے گا۔ اسی طرح انصاف کا قانون بھی مقدس ہے۔ ہم خود کو جتنا درست اصولوں پر چلنے کے قابل بنائیں گے، بحیثیت قوم ہماری قسمت اتنی ہی اچھی ہوگی۔ بلوچستان کے مسئلے کا حل بیلٹ باکس میں ہے اور اسی سے بہتری کی امید ہے۔ حکمرانوں کی حالیہ پالیسیوں نے صرف تشدد کو جنم دیا ہے۔ بلوچستان دکھ کے غبار میں لپٹ چکا ہے، وہاں نا انصافی، عدم مساوات اور حقوق کی پامالی کا راج ہے۔ حالیہ کشیدگی صوبے میں شروع ہونے والی تاریخ کی طویل ترین کشیدگی ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ بگٹی اور مشرف کی ملاقات اسلام آباد میں طے ہوگئی تھی لیکن پھر نا دیدہ قوتوں نے عین وقت پر یہ ملاقات نہ ہونے دی۔ مشرف کو یہ بتایا گیا کہ سوئی سے اڑنے والا جہاز فنی خرابی کا شکار ہو گیا ہے جبکہ اکبر بگٹی دیکھ رہے تھے کہ جہاز ان کے بغیر ہی اسلام آباد پرواز کر گیا ہے۔ بگٹی ایک ضدی اور عجیب شخص ضرور تھا لیکن اس نے کبھی بھی پاکستان کیخلاف ایک لفظ تک نہیں بولا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ بروقت ہونا چاہئے تھا۔ اگست 2024ءمیں بلوچستان کے اپنے آخری دورے کے بعد میں نے ایک مضمون کے ذریعے طاقت کے ایوانوں پر قابض افراد کو خبردار کیا تھا کہ بلوچ نوجوان خاص طور پر نوجوان عورتیں بیزار ہو چکی ہیں۔ بلوچ سردار بے وقعت ہو چکے ہیں۔ حل بہت آسان تھا، صاف اور شفاف انتخابات۔ 8فروری 2024ء کے انتخابات میں جن لوگوں نے حصہ لیا وہ ریاست کیخلاف نہیں تھے بلکہ ووٹ اور گولی میں ووٹ کا انتخاب کر کے تنازعے کے حل کا حصہ بننا چاہتے تھے۔ انہیں انکے مینڈیٹ سے محروم کر دیا گیا۔ انتہا درجے کا دھاندلی زدہ الیکشن تاریخ میں یاد رکھا جائے گا‘‘۔بلوچستان میں اٹارنی جنرل رہنے والے سابق صوبائی وزیر امان اللہ کنڑانی کا کہنا ہے کہ ’’بلوچستان کی جان، کرپٹ سیاستدانوں سے چھڑوائی جائے، ریاست بلوچستان سے متعلق پالیسی کو یکسر تبدیل کر دے، جس طرح جنرل ضیاء الحق نے کیا تھا، جونہی پالیسی تبدیل ہو گی تو آہستہ آہستہ زخم بھرنا شروع ہو جائیگا‘‘۔ حال ہی میں ہونیوالے نیشنل سیکورٹی کونسل کے اجلاس میں ایک اہم شخصیت نے بیڈ گورننس پر کھل کر بات کی ہے۔ بس اب آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ

شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

تازہ ترین