• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوسرا ٹرمپ دور شروع ہوتے ہی ’’امریکہ فرسٹ‘‘ کے منگول گھوڑےپر سوار اور امریکی عالمی برتری کی بحالی سے سرشار امریکی صدر نے بالآخر اپنی ’’ٹیرف سورڈ‘‘ بلاامتیاز امیر و غریب ممالک پر چلا دی۔ اس مشکل ترین اور عالمی اقتصادیات کو بڑے چیلنج سے دوچار کرنیوالی اس شمشیر زنی TARIFF FENCING(امپورٹ پر بھاری ڈیوٹی عائد کرنے) کا واحد مقصد مقابل ورلڈ اکانومی کے بے قابو دیوتا چین کو دبا کر مصدقہ ثانوی حقیقت میں لاتے اپنی سرد جنگ والی دنیا بھر میں امریکی دھاک دوبارہ قائم کرکے امریکی اقتصادیات کی ناقابل تسخیر (بطور ورلڈ اکنامک لیڈر) حیثیت کو یقینی اورمستقل بنانا ہے۔ دوسری جانب چین کی بلند درجے کی قابل قبول پرامن عالمی تیز تر اقتصادی اٹھان کے خصوصی حوالے سے عالمی سیاست کے منظر پر واضح ہوگئے پیراڈائم شفٹ میں چین کے ورلڈ اکنامک لیڈر شپ میں حاصل مکمل جائز اور پروپیپلز شیئرنگ، برپا عالمی تغیر کی واضح قائم ہوگئی اٹل حقیقت ہے۔ اس پس منظر میں ایک اور یقینی ہوگئی حقیقت چین کیلئے عالمی اقتصادی نظام کی تشکیل میں چینی صدر شی پنگ کی ویژنری لیڈر شپ کی CONNECTIVITY کی سرعت سے روبہ عمل اور عالمی سطح پر مقبول ترین مقبولیت اور قبولیت ہے۔ اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس عمل میں ڈھلی حقیقت کو روس، یورپی یونین اور سعودی عرب جیسے امریکی حلیف قبول کرکے عالمی امن کو برقرار رکھتے اور عالمی سیاست کی کسی اور بڑی چپقلش سے بچتے، اس قبولیت کے محتاط، متوازن لیکن واضح اور جزواً عملی شکل اختیار کرتے،شی پنگ کی بین الاقوامی تعلقات کی ثمر آور فلاسفی آف CONNECTIVITY کو عملاً اختیار کر چکے ہیں اور اس میں شامل ہونے کی آمادگی کا واضح ابلاغ بھی۔ اب جو صدر ٹرمپ نے ’’امریکہ فرسٹ‘‘ کے جذبے سے سرشار ہو کر اپنے تئیں نئی عالمی اقتصادی جنگ میں ایک ہی صدارتی آرڈر سے ٹیرف کی تلوار سے 140 ممالک کو بیک وقت گھاؤ لگایا ہے۔ سکت والے ممالک اس کا مقابلہ سوفٹ بارڈرز کے چینی مجوزہ و جاری توڑ CONNECTIVITY (سرحد تک سرحد تجارتی طویل بیلٹ) سے نہیں کریں گے؟ واضح رہے اس کے سینکڑوں کی تعداد میں روڈ میپس سارے براعظموں کے ان متاثرہ 140 ممالک کے پاس ہیں یا وہ تیار کر رہے ہیں کہ وہ اپنے غریب و متوسط عوام کے اقتصادی حقوق کا تحفظ اس چھتری CONNECTIVITY تلے آ کر کیونکر کر سکتے ہیں؟ گمان غالب ہے کہ یہ سوال جواب میں ڈھلتے کوئی دیر نہیں لگے گی، لیکن جواب عملاً اتنی جلدی بھی سامنے نہیں آئے گا،جتنا ٹرمپ کا وار ہوا،وہ تو ہر ایسا صدارتی آرڈر سائن کرکے ببانگ دہل کیمرے کے فیس پر لا کر کل عالم کو جتاتے ہیں کہ وہ اپنے اس متنازعہ ترین انتظامی الیکشن میں کتنے پر اعتماد اور یکسو ہیں۔ آخر تو اس کی راہ انہوں نے ’’منگولین گھوڑا دوڑانے‘‘ اور ٹیرف فینسنگ کی تلوار لہرانےکی اختیار کی ہے۔

قارئین کرام! آپ کی آسان تر ذہن نشینی کیلئےواضح کیا جارہا ہے کہ:آخر یہ امریکی انوکھی لیکن ویل مینڈیٹڈ لیڈر شپ کی یہ ’’ٹیرف سورڈ‘‘ کیا بلا ہے؟ یہ وہ بھاری امپورٹ ڈیوٹی ہے جو دنیا کے ممالک سے ہر طرح کے برآمدی مال پر عائد ہوگی۔ جیسے امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی جغرافیائی حدود سے باہر نکل کر دنیا بھر میں اپنا دائرہ اثر بڑھانے اور نو آزاد ممالک میں تحلیل ہوئے نو آبادیاتی نظام کا خلاپورا کرنے کیلئے NEO-COLONIALISM (نیم نوآبادیاتی نظام کی اپروچ سے)’’فارن ایڈ‘‘ کو خارجہ پالیسی کے ایک نئے انسٹرومنٹ کے طور پر متعارف کرایا اور پاکستان سمیت بہت سے ثمر اپنی جھولی میں ڈالے، اب اسی طرح تجارتی ذہن امریکی زور دار صدرٹرمپ نے امریکی مسلمہ اقتصادی عالمی قیادت کے سرکتے عمل کو بچانے اور سرد جنگ والی عالمی دھاک بحال کرنے کیلئے ’’ٹیرف سورڈ‘‘ (امپورٹ ڈیوٹی کی تلوار) کو خارجہ پالیسی کا نیا ٹول یا انسٹرومنٹ بنایا ہے۔ ٹرمپ صاحب نے اسے تلوارکی مانند یوں استعمال کیا ہے کہ پاکستانی برآمدات پر 29فیصد ڈیوٹی عائد ہوگی تو یقیناً امریکہ میں ان برآمدی اشیا کی قیمتوں میں اتنا ہی اضافہ ہو جائے گا جس سے طلب کم اور رسد بھی کم ہو جائے گی۔ یوں پاکستان امریکہ سے زرمبادلہ کمانے، اپنے بڑے روزگار اور صنعتی عمل کے بڑے فیصد سے محروم ہو جائے گا۔ یہ ہی نہیں امپورٹ ایکسپورٹ کے امریکی توازن کو اپنے حق میں کرنے کے مخلصانہ جذبے میں نہ جانے وہ کیسے بھول گئے کہ امریکی غربا جو ان گنت چینی درآمدی اشیاء روز مرہ زندگی میںاستعمال کررہے ہیں۔ ان کی غیر معمولی مہنگائی پر وہ چیخ نہیں پڑیں گے؟ یہ وہ دوسری مزاحمت اٹھے گی جو اتحادیوں اور ہمسایوں کے بعد، صدر ٹرمپ کو اب فیس کرنا ہوگی۔ دیکھیں کیسے کرتے ہیں؟ جبکہ پہلے دور کی چھیڑی ساؤتھ چائنہ سی سے چینی تجارتی جہازوں کی بحری ٹریفک کو روکنے کیلئے، چینی ساحلوں سے قریب ترین آبنائے کو بلاک کرنے کے سنجیدہ ارادے کی جنگ انتہائی شرمساری سے ہاری ،انتخابی شکست سے ایک سال قبل ہی ہار گئے تھے، جب نیم دفاعی معاہدے کواڈ میں بھارت، آسٹریلیا، اور جاپان کوئی کھلے ڈلے اتحادی نہ بن سکے۔ اوپر سے چینی جارحانہ رویہ بھی دنیا نے دیکھا کہ تائیوان پر اپنے دعوے کی جو فائل اس نے کمال دانش صبر اور حکمت سے نہ بند کی تھی نہ کھولی ہوئی تھی، کو کھول دیا۔ ٹرمپ تو ساؤتھ چائنہ سی کو عالمی تنازع بنانے اور حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے،لیکن چین نے اپنی بحری فضائی اور بری افواج کومتحرک کرکے وہ کچھ کر دکھایا کہ مشرقی ایشیا کے پورے خطے کے سب ہی اتحادیوں کو سلامتی کے لالے پڑ گئے۔ بہت بڑا سوال یہ بھی ہے کہ کیا امریکہ کے پاس فوری طور پر وہ انفراسٹرکچر ٹیرف عائد ہوتے ہی موجود ہے؟ جو روزمرہ انسانی زندگی کے اصراف (یومیہ استعمال کی لازمی اشیاء) اسی قیمت میں فوراً فراہم کرسکے؟ اور دنیا میں کہیں اور سے بھی؟ اس پر عام اور غریب امریکیوں کا کیا بنے گا؟ لباس، خوراک سے لے کر آئی ٹی کی پراڈکٹس تک اتنی جلدی ٹرمپ کی مرضی کی قیمت اور ڈیوٹی پر امریکی عوام کو ملنا شروع ہوجائیں گی؟ تو یہ سوال نہیں بنتا کہ امریکی زور دار صدر عالمی تجارتی جنگ اول اپنے پہلے دور کے اختتام پر ہار کر بائیڈن جیسے نحیف صدارتی امیدوار سے ہار کر نکلے، کیا وہ اپنی چھیڑی دوسری عالمی تجارتی جنگ بذریعہ ٹیرف سورڈ+ دوسری ٹرم کے آغاز پر ہی ہار نہیں جائیں گے؟۔ (جاری ہے)

تازہ ترین