• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پھر یوں ہوا کہ میں نے احمد بشیر سے پوچھا:اچھی فلم کی آپ کے نزدیک کیا تشریح ہے ؟۔حمید اختر سے ایک انٹرویو میں سوال کیا:لیکن اچھی فلم کی آپ کیا تعریف کریں گے؟شمیم اشرف،ملک اشفاق احمد،کنور آفتاب ،جاوید جبار ،وغیرہ سے بھی اسی سے ملتا جلتا سوال پوچھا۔

میرے حساب سے اچھی فلم کی معتبر تشریح کسی نے کرنا ہی نہیں چاہی۔ یار لوگ (REALISTIC) فلم بنانےبیٹھتےہیںاور (FACTUAL ) بنا ڈالتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں لوگ ان کے’’فن‘‘ کو سمجھ نہیں سکے۔ اب’’لوگ‘‘لفظ جو ہے یہ سب کیلئے مستعمل ہے اور ہر شخص دانشور یا INTELECTUAL نہیں ہوتا پھر بھی لوگ اصل اور نقل کے فرق کو خوب جانتے ہیں۔

میری رائے میں جب ہدایت کار FACTUAL کی زد میں آ جاتا ہے تو دم توڑ دیتا ہے، حقیقت بیان کرنا ہدایتکار کا کام نہیں اور پھر جوں کا توں اور ہو بہو اسکرین پر پیش کر دینے میں اس کا اپنا کیا کمال ہے ؟فلم میکر حقائق کا وقائع نویس نہیں ہوتا بلکہ ظاہر و باطن کے درمیان رہنے والے امکانات اور اشاروں کا خبر رساں ہے ایک اچھا ہدایتکار فلم کے کرداروں کو اپنے لائحہ عمل اور مقاصد کے مطابق ڈھالنے کی سعی اور اپنے حوصلے کی پیمائش کرتا ہے۔

پاکستان میں چند فلمیں بنی تھیں۔ شمیم اشرف ملک کی نیند، گھر پیارا گھر،سیما۔ حمید اختر کی سکھ کا سپنا، کنور آفتاب کی جھلک ،احمد بشیر کی نیلا پربت،اشفاق احمد کی دھوپ اور سائے اور جاوید جبار کی مسافروغیرہ یہ فلمیں دوسری بننے والی فلموں سے مختلف تھیں ایک طبقہ ان فلموں کو اہم بھی تسلیم کرتا ہے لیکن یہ تمام فلمیں بالخصوص ہماری فلمی صنعت پر اور بالعموم قومی زندگی پر رتی بھر اثرات مرتب نہ کر سکیں۔کچھ عرصہ پیشتر میں نے کہیں یہ پڑھا تھا کہ 50 کی دہائی میں ہم متعدد قومی حادثوں سے دوچار ہوئے۔50 کی دہائی میں فیض صاحب اور شمیم اشرف ملک مرحوم فلم کے میدان میں اترے، اسی دہائی میں وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورِہ امریکہ سے ہماری سیاسی ہلاکت کا آغاز ہوا۔جو بعد ازاں فوجی اور معاشی تعاون کے معاہدوں کے ذریعے آگے بڑھتی گئی۔ اسی دوران پنڈی سازش کیس کا غلغلہ بلند ہوا۔ مشرقی بنگال (مشرقی پاکستان)میں بنگالی کو دوسری قومی زبان بنانے کی تحریک چلی، قوم پر ون یونٹ مسلط کر دیا گیا1958 میں قوم کو مارشل لا کے تجربے سے گزرنا پڑا۔ ان تمام برسوں میں فیض احمد فیض کے ساتھ شمیم اشرف ملک، حمید اختر اور احمد بشیر نے اپنی اپنی فلمیں بنائیں۔احمد بشیر کی’’نیلا پربت‘‘ اس عہد کا خاص واقعہ تھا۔ دوسرا اہم واقعہ یہ تھا کہ ہم نے بورژوا جمہوریت کیلئے جدو جہد کی۔ 1970 کی دہائی کے آغاز میں ہم نے بنگال رہا کر دیا۔ اور اس کے بعد پارلیمنٹ کی سیڑھیاں چڑھنا سیکھا۔اس اثنا میں اشفاق احمد نے ’’دھوپ اور سائے‘‘ بنائی ۔اور فیض احمد صاحب نے NFDC این ایف ڈی سی کے تعاون سے مشرقی پاکستان میں ایک فلم کا ڈول ڈالا فلم تو کیا پایہ تکمیل تک پہنچتی پہلی ریلیں ہی بنگال کے خون میں ڈوب گئیں ۔

’’ نیند‘‘غالباً پاکستان کی پہلی سنجیدہ فلم تھی شمیم اشرف ملک جیسے دانشور کی دانشورانہ کوشش اور یہ کوشش ناکامی کے ہاتھوں مات کھا گئی لیکن نیند تو ایک ترقی پسندانہ اور بامقصد فلم تھی اسے کیوں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ؟’میں نے بعض غیر اہم نکتوں پر تو سمجھوتہ کیا لیکن میں بیشتر بنیادی مسائل پر ہتھیار ڈالنے کیلئے تیار نہ تھا‘ـ شمیم اشرف ملک نے بتایا ،بنیادی مسئلے سے ان کی کیا مراد تھی؟ یہ میں نہیں جان سکا میرے حساب سے انہوں نے ایک فارمولے کو رد کر کے دوسرا فارمولا پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اور یہ کہ آرٹ میں سماجی اور معاشرتی حقیقت نگاری کا تصور سخت قسم کی پابندیاں عائد نہیں کرتا۔یہ حقیقت نگاری اپنے سماج کے حالات اور تقاضوں کے درمیان جنم لیتی اور پروان چڑھتی ہے۔ شمیم اشرف ملک کی تینوں فلمیں عوام میں پہنچیںتو ضرور لیکن باکس آفس پر ناکام رہیں ۔

حمید اختر کی’’سُکھ کا سپنا‘‘ آسٹریلیا کے کمیونسٹ ادیب کے ناول THE POWER WITH GLORY پر مبنی فلم تھی۔ حمید اختر نے ایمسٹرڈیم میں ایک بار مجھے بتایا۔ترقی پسندانہ فلم کی جانب یہ ایک نہایت اہم قدم تھا۔ فلم کے ساتھ بہترین لوگ وابستہ تھے ہدایتکار مسعود پرویز کے علاوہ فیض صاحب تھے اداکاروں میں علاؤ الدین ،طالش وغیرہ ہمارے ساتھ تھے۔ یہ ساری باتیں فلم انڈسٹری کے کچھ لوگ برداشت نہ کر سکے انکا خیال تھا کہ اگر ہم کامیاب ہو گئے تو انڈسٹری کی سکہ بند جہالت کے مفادات خطرے میں پڑ جائینگے چنانچہ ساری فلم انڈسٹری شعوری طور پر ہمارے مقابلے پر آگئی باقاعدہ جلسے ہوئے ہنگامہ برپا ہوا دانستہ فلم کے پرنٹ گھٹیا تیار کیے گئے اور وہ بھی بروقت سینما ہال تک نہ پہنچ پائے جسکے باعث پہلے شو میں ہی بدمزگی پیدا ہو گئی، لیکن میں اپنے سمجھوتہ نہ کرنے پر شرمندہ نہیں ہوں۔ـ نیلا پربت احمد بشیر نے اپنی بلیک اینڈ وائٹ فلم کا نام نیلا پربت تجویز کر کے یہ سمجھ لیا تھا کہ اب دور دور تک کامیابی کا کوئی خطرہ نہیں ہے سو یہی ہوا ۔احمد بشیر ہالی وڈ سے فلم بنانے کی تربیت لیکر آئے تھے انہوں نے پاکستان کی فلم انڈسٹری کے جاہلانہ ماحول میں موضوع تکنیک اور فن کے چراغ روشن کرنے کی کوشش کی اس کا شدید رد عمل ہوا مخالفتوں کے طوفان اٹھ کھڑے ہوئے دوسری طرف فلم بین بھی ناراض ہو گئے یہ فلم انہیں اپنے ساتھ ایک سنگین مذاق لگا۔ میرے خیال میں انہوں نے بھی اپنے عہد کی سماجی حقیقتوں کو نظر انداز کر کے یہ ناکامی مول لی تھی ۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان تینوں ہدایتکاروں کی زیر ہدایت بننے والی فلموں کی کہانیاں لاجواب تھیں لیکن یہ ایک الگ بحث ہے محض اچھی کہانی فلم کو ڈوبنے سے نہیں بچا سکتی وہ اسے صرف قابل برداشت بنا سکتی ہے۔

تازہ ترین