جمیل ادیب سیّد
اندھیرے پھیل گئے، روشنی تمام ہوئی
جمیل ادیب اُٹھو، گھر چلو کہ شام ہوئی
عجیب خواب تھا، آنکھوں میں زہر گھول گیا
کچھ ایسے آنکھ کُھلی، زندگی حرام ہوئی
میری صدائیں تُجھے ڈھونڈتی ہیں، تُو ہے کہاں
یہ جستجو، یہ طلب جب سے تیرے نام ہوئی
ہیں میرے سامنے میری مسرّتوں کے کھنڈر
وہ آرزو، وہ محبّت خیالِ خام ہوئی
مَیں زندگی کے سفر میں فریبِ منزل ہوں
وہ کارواں کہ جسے راستے میں شام ہوئی