امریکہ پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے۔پاکستان امریکہ کو کیا نہیں بیچتا۔ گھریلو ٹیکسٹائل ، بستر کی چادریں، تولیے، سوتی کپڑے ،ٹی شرٹس، جینز،بُنے ہوئے ریشمی کپڑے،چمڑے کی اشیاء،جیکٹس ،دستانے ،جوتے،سرجیکل آلات ،کھیلوں کا سامان، چاول، قالین، سمندری غذا اور زرعی مصنوعات ،کیمیکلز حتیٰ کہ ادویات تک پاکستان امریکہ کو بھیجتا ہے ۔تقریباً ہرسال آٹھ بلین ڈالر پاکستانی برآمدات کی مد میں امریکہ سے پاکستان آتےتھے۔ ان اشیا ءپر امریکہ کی طرف سے انتیس فیصد ٹیکس لگ جانے کے بعدمجھے تو یہ آٹھ بلین ڈالر برباد ہوتے نظر آ رہے ہیں ۔کیونکہ یہ چیزیں امریکہ میں بھی بنتی ہیں مگر پاکستان سےآئی ہوئی چیزیں زیادہ سستی تھیں ۔اس ٹیرف کے بعد امریکہ کی اپنی بنائی ہوئی چیزیں ان سے سستی ہو گئی ہیں سو اب لوگ یقیناًانہیں خریدیں گے ۔امریکہ نے خاص طور پرپاکستان کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ عالمی کاروباری جنگ کا آغاز کیا ہے اورپہلا معاشی ایٹم بم چلادیا گیاہے ۔یہ جنگ بنیادی طور پر چین کے خلاف شروع کی گئی ہے ، چین نے توجوابی حملہ بھی کردیا ہے ۔اس نے تمام امریکی مصنوعات پر چونتیس فیصد ٹیکس عائد کردیا ہے ۔یقیناً پاکستان بھی ایسا کچھ کرے گا مگرپاکستان جو چار بلین ڈالر کی مصنوعات امریکہ سے درآمد کرتا ہے اس میں مشینری اور الیکٹریکل آلات،ایوی ایشن اور دفاعی سامان ، کیمیائی اشیاء،طبی آلات اور دوائیں،خوراک و زرعی اشیاء۔تعلیمی اور سائنسی مواد وغیرہ شامل ہیں ، ان اشیا ءمیں اسی فیصد حکومت پاکستان خریدتی ہے۔یعنی یہ معاملہ بھی گڑ بڑ ہے ۔امریکہ نے کچھ پاکستانی سامان کو ٹیکس فری کیا تھا جودوہزار بیس میں ختم کر دیا گیا۔اس کی تجدید کی کوششیں جاری تھیں کہ امریکہ نے الٹا انتیس فیصد ٹیکس عائد کردیاہے ۔
دنیا اس وقت حیرت میں ڈوب گئی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئے تجارتی محصولات کا اعلان کیا۔اعلان ہوتے ہی دنیا کے پانچ سو امیر ترین افراد کو دوسو آٹھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ناقدین نے اسے’’عالمی تجارتی نظام پر ایٹم بم‘‘ سے تعبیر کیا۔ ایک جنگ شروع ہوئی ہے جس میں گولیاں نہیں چلنی، لیکن نقصانات شدید اور دور رس ہونگے۔ عالمی تجارتی نظام کو بے انتہا نقصان پہنچنے والا ہے۔پہلے زیادہ تر ممالک پر شرح ٹیکس دس فیصد تھی ۔اب اضافی ٹیکس ملا کرویت نام پر کل ٹیکس چھپن فیصد ،کمبوڈیا پر انسٹھ فیصد،سری لنکا پر چون فیصد، چین پر چوالیس فیصدکردیا گیاہےیعنی امریکیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ویت نام ، کمبوڈیا ، سری نکا اور چین کی بنی ہوئی کوئی شے خریدیں ہی نہیں ۔
عالمی معیشت ایک عرصے سے قواعد و ضوابط پر مبنی تجارت پر استوار رہی ہے، جس کی نگرانی اوررہنمائی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کرتی ہے۔ ان اقدامات کو بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی تصور کیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے امریکہ کے قریبی اتحادیوں جیسے کینیڈا، یورپی یونین، جاپان اور جنوبی کوریا وغیرہ کو بھی نہیں بخشا۔یقیناًوہ جانتے ہیں کہ یہ ٹیکس براہ راست غیر ملکی حکومتوں پر نہیں بلکہ درآمد کنندگان اور صارفین پر لاگو ہوتا ہے۔ امریکی کمپنیوں کو خام مال مہنگے داموں خریدنا پڑے گا، جس کا بوجھ آخرکار صارفین پر آئے گا۔ نتیجتاً واشنگ مشینوں، الیکٹرانکس اور روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا، سب سے زیادہ متاثر امریکہ کا وہ طبقہ ہوگا جو پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار ہے۔مثال کے طور پر آئی فون کی قیمت میں چوالیس فیصد کا اضافہ ہوجائے گا کیونکہ آئی فون بنانے کی فیکٹری چین میں ہے ۔صدر ٹرمپ کو یقین ہے کہ اس ٹیرف کے بعد بہت سے امریکی بزنس اورفیکٹریاں جو چین یا دوسرے ممالک میں شفٹ کردی گئی ہیں ،واپس امریکہ آجائیں گی اورامریکہ اپنی صنعتی عظمت دوبارہ حاصل کر لے گا ۔
اگرچہ صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کا مقصد چین کی صنعتی حکمت عملی اور دانشورانہ املاک کی خلاف ورزیوں کو روکنا ہے،مگر لگتا ہےکہ تجارتی خسارہ کم ہونے کے بجائے بڑھ جائے گا۔مستقبل کی تجارتی دنیا کو ان پالیسیوں اور انکے عالمی ردعمل نے ایک نئے سفر پر دھکیل دیا ہے۔ ایک نئی اقتصادی دنیا بنتی نظر آ رہی ہے ۔کمپنیاں اب دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سپلائی نیٹ ورکس پر انحصار کم کر دیں گی ۔ مضبوط تجارتی بلاکس بنیں گے۔ اب ممالک عالمی اداروں کے بجائےعلاقائی تجارتی معاہدوں کو ترجیح دیں گے جیسے ایشیائی ممالک ، بحرالکاہل کے ممالک ، امریکہ کینیڈا اور میکسیکو کے آپس میں معاہدے۔ چین کی تجارتی قیادت میں اضافہ ہوگا ۔بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ،ڈیجیٹل یوآن کے ذریعے دنیا کی سب سے بڑی تجارتی شراکت داری بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے ۔ قومی سلامتی کابنیادی تعلق اقتصادیات سے ہوتا ہے ۔ خوراک، ادویات،توانائی اور ٹیکنالوجی قومی سلامتی کے اہم ستون سمجھے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے اس شعبے میں ریاستی مداخلت، سبسڈیز اور تجارتی رکاوٹیں بڑھ رہی ہیں۔اب پائیدار تجارت کے رجحان میں اضافہ ہوگا۔ ماحولیاتی تبدیلی بھی اب تجارت کا ایک اہم عنصر بن چکی ہے۔ کاربن ٹیکس، گرین ٹیرف اور معیارات عالمی تجارتی پالیسیوں میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ ڈیجیٹل اور اے آئی تجارت کا دور شروع ہوچکا ہے۔مستقبل کی تجارت ڈیجیٹل خدمات، ای-کامرس اور مصنوعی ذہانت اے آئی پر مشتمل ہو گی۔ ڈیٹا کی خودمختاری، سائبر تحفظ اور ڈیجیٹل ٹیکس جیسے مسائل نئے تجارتی میدان بن چکے ہیں۔صدر ٹرمپ کی تجارتی جنگ نے بلاشبہ ایک نیا باب رقم کیاہے ، جس نے عالمی تجارت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ چاہے اسے نقصان دہ کہا جائے یا ضروری، اس کے اثرات اب پوری دنیا کے معاشی نقشے پر نظر آ رہے ہیں۔اب غریب ممالک اور غریب تر ہونگے ۔اب دنیا کو ایک نئے معاشی مستقبل کا سامنا کرنا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے ہم پاکستانی اس عالمی معاشی جنگ میں کیا کریں گے ۔چین پر کتنا انحصار کیا جاسکتا ہے ؟ ۔آٹھ بلین ڈالر کےفوری نقصان کا ازالہ ہم کیسے کریں گے ، ہماری معیشت اورکتنی تباہ ہوگی ۔