• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والی گرین ہائوس گیسز (GHG) کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہایت خفیف محض ایک فی صد ہے، لیکن یہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بدترین متاثرہ چند ممالک میں سےایک ہے۔ پاکستان کا Vulnerability Index بہت زیادہ ہے اور کوئی طویل المیعاد منصوبہ بندی بھی موجود نہیں۔ ٹیکنالوجی صلاحیتیں نہایت کم تر ہیں کہ جنکی مدد سے یہ ملک آفات کا مؤثر مقابلہ کر سکے۔ ماحولیاتی آفات اور شدائد کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے چھوٹے کسان، ہاری اور اربن علاقوں کے مزدوروںکی اشک شوئی کیلئے کوئی ترجیحات نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ملکی سطح پر GHG کے اخراج کو روکنے کیلئے کوئی مؤثر پلاننگ موجود نہیں، جسکی وجہ سے ٹرانسپورٹ، بلڈنگز اور کھیتوں سے ان گیسز کے اخراج کا باعث بننے والی توانائی کے متبادل کوئی طویل المیعاد منصوبہ بندی موجود نہیںہے۔ حالیہ برسوں میں تین سیلابوں نے پاکستان کی اکانومی اور زرعی آمدنی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ 2010ء میں ملکی پیداوار کو 13.3ملین ٹن زرعی پیداوار کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ 2ملین ہیکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ اس کے علاوہ 1.2ملین لائیواسٹاک اس سیلاب کی نذر ہو گیا۔ 2011ء کے سیلاب میں ایک لاکھ پچیس ہزار مویشیوں کی ہلاکت ہوئی۔ پانچ ملین جانور بچ رہے، لیکن بیماریوں کی نذر ہو گئے۔ اسی طرح 2014ء کے سیلاب میں 2.5ملین لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ اس سے وابستہ گھروں اور فصلوں کا نقصان مستزاد۔ پاکستان کی تاریخ میں سب سے بدترین سیلابی منظر 2022ء میں دیکھا گیا، جس میں 33ملین لوگ متاثر ہوئے۔ 10لاکھ گھر تباہ ہوئے اور ساڑھے سات بلین ڈالر معیشت کا نقصان ہوا۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے ان واقعات اور اثرات کے ساتھ پاکستان میں گلوبل وارمنگ بھی انتہائوں کو چھو گئی ہے۔ صوبہ سندھ اور پنجاب کے بعض علاقوں ازقسم نواب شاہ اور ڈیرہ غازی خان میں ٹمپریچر میں اضافہ 50.4ڈگری کی انتہائوں تک پہنچ چکا ہے، جو پوری دنیا کا ریکارڈ ٹمپریچر ہے۔ خیبرپختونخوا، بلوچستان اور اسلام آباد کے جنگلوں میں آتشزدگی کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں اور گلوبل وارمنگ کی شدت ہے کہ اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹمپریچر میں یہ اضافہ اگر تسلسل سے جاری رہا تو خدشہ ہے کہ قحط سالی اور سیلابی ریلوں کا شکار فصلوں کی پیداوار کم ہو جائیگی، جسکی وجہ سے ملک میں اجناس کی قیمتیں ناقابل برداشت ہو جائیں گی۔ موسموں کے تغیر اور درجہ حرارت کی تبدیلی فصلوں کی بوائی اور کٹائی وغیرہ کے اوقات میں تبدیلی اور بعدازاں کمی کا باعث بنے گی ۔ حدت میں اضافہ آبی بخارات میں اضافے کا مؤجب ہو گا اور یوں آبی ذخائر اور نہری نظام میں پانی کی کمی، غذائی قلت اور بعدازاں معاشی بدحالی، نقل مکانی اور قومی مالی بحران کا باعث بن سکتی ہے۔

ملکی زراعت کو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ ایسی زراعت اور کھیتی باڑی کو فروغ دیا جائے جو ان آفات سے فائدہ بھی اُٹھا سکے اور ان کا مقابلہ بھی کر سکے۔ زرعی شجرکاری کے ذریعے ایسے درخت اور پودے لگائے جائیں جو زرعی فصلوں کی نہ صرف حفاظت کریں بلکہ پت جھڑ کے ذریعے زمین کی زرخیزی میں اضافہ کا بھی باعث ہوں۔ یا ایسی اقسامِ فصل کا انتخاب کیا جائے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہوں اور بدرجہ اتمAdaptation کی صلاحیتوں کی حامل ہوں۔ پانی کی بہم رسانی اور فصلوں کی کاشت میں ایسے طریقے اختیار کئے جائیں کہ پانی کا کم از کم استعمال ہوا اوروہ ضائع نہ ہو سکے۔ پاکستان چونکہ موسمیاتی تبدیلیوں اور حدت کا زیادہ شکار ہے اور جسکی ذمہ داری ترقی یافتہ ممالک کی انڈسٹریل گیسز ہیں۔ لہٰذا بین الاقوامی فورم اور اداروں میں پاکستان میں موسمی تباہ کاریوں کے کیس کو پروفیشنل اور ٹیکنیکل تجزیہ کاروں کے ذریعے پیش کیا جائے تاکہ ان اداروں سے تکنیکی اور مالی معاونت حاصل کی جا سکے اور آفات کا مؤثر مقابلہ کیا جا سکے۔ حال ہی میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے 1.3بلین امریکی ڈالر تقریباً -350ارب روپے کی مالی معاونت کا وعدہ کیا ہے۔ اس کثیر امداد کو مہنگی Cut and Paste رپورٹوں اور غیرضروری مدات میں خرچ کرنے کی بجائے سب سے زیادہ متاثرہ شعبہ جات میں براہِ راست صرف کیا جائے تاکہ موسمیاتی تباہ کاریوں کے دوران زراعت اور معاش کی تباہ حالیوں کی بحالی ہو سکے اور آئندہ برسوں کیلئے ان متاثرہ شعبوں کو ماحولیاتی مقابلہ کیلئےتیار کیا جا سکے۔ غریب کسانوں اور ہاریوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گوناگوں تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کم آمدنی والی زراعت سے محرومی اور خستہ حال مکانوں کی سیلاب زدگی کی صورت میں، بعینہٖ اربن اور شہری محنت کش بھی دوہری مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی سختیاں اور بعدازاں شہری عمارات کے ایئرکنڈیشنز سے اخراجِ حدت اور گرمی کی شدت کی وجہ سے، لہٰذا صائب حکمت عملی یہی ہے کہ اس مالیاتی فنڈ سے ان پسماندہ طبقات کی مالی اور جسمانی راحتوں کا اہتمام کیا جائے۔ آئی ایم ایف نے جن Intended مقاصد کےلئے امداد فراہم کی ہے، انہی مدات پر خرچ کیا جائے۔ ماضی میں ایسی مالی معاونتوں اور فنڈز کوفراہمی انصاف یا انسداد غربت کی بجائے زیادہ تر افسران کے شاہانہ تصرف میں لے کر ضائع کیا گیا۔

IMF کی جانب سے مالیاتی معاونت کے بامقصد استعمال کےلئے لازم ہے کہ ایماندار اور محب وطن افراد کا انتخاب اور تعیناتی کی جائے تاکہ اقربا پروری اور بددیانتی میں امداد کا ضیاع نہ ہو۔ رقوم کی تخصیص (Allocation)، اشیاء و خدمات کی فراہمی اور منصفانہ خریداری ایسے افسران کا شعار ہونا چاہئے۔ مزیدبرآں اس کثیر رقم اور امداد کو Detrack ہونے سے بچانے کےلئے آزاد اور غیرجانبدار Evaluation اور آڈٹ کا بھی اہتمام ہو۔

تازہ ترین