میری زندگی میں جون اور دسمبر کے مہینے اہمیت رکھتے ہیں ۔جون میں دو حادثے ہوئے۔میری پیدائش،اور میری شادی اور دسمبر میں نقل مکانی اور دو تین چوریاں ۔میں دسمبر 72 میں کوئٹہ میں تھا جب مجھے گورنمنٹ کالج رحیم یار خان کیلئے تقرر نامہ ملاٹیکنیکل اسباب تھے کہ اس نئے تقرر کے ساتھ لکھا تھا کوئی ٹی اے ڈی اے نہیں ملے گا ۔تب مسافروں کا ایک ہی رہنما ہوتا تھا اور وہ تھا ریلوے ٹائم ٹیبل سو کوئٹہ ایکسپریس سے آدھی رات کو رحیم یار خان پہنچا سٹیشن کے قریب ایک معمولی ہوٹل میں سامان رکھا اور صبح ہونے تک ایک اجنبی شہر کے بارے میں تین اچھی باتیں سوچیں کہ بے شک یہاں کو ئی یار نہیں مگر اس شہر کے نام میں رحمت اور یاری کا وعدہ ہے۔دوسرے قیام پاکستان سے بھی بہت پہلے میرے دادا یہاں سب پوسٹ ماسٹر رہے اور کافی پھلے پھولےاور تیسرے یہ کہ ایمرسن کالج ملتان میں مجھے فارسی پڑھانے والے عبدالعزیز جاوید وہاں ہیں ۔ہسپتال روڈ کے عقب میں وہ کالج تھا جہاں میں تین برس رہا بہت اچھے شاگرد ملے مہربان ساتھی کالج کے کتاب خانے میں فسانہ آزاد کی چاروں جلدیں تھیں نول کشور کی چھپی ہوئی ۔یہیں مجھے اردو کے میرے مہربان استاد سید ریاض حسین زیدی ملے اور انگریزی کے مبارک احمد مجوکہ جن کے تبادلے ساہیوال اور ملتان میں ہو چکے تھے اور وہ پا بہ رکاب تھے ۔ کالج کے پرنسپل سید اشرف علی شاہ دہلوی تھے دھان پان سے نفیس اور مہذب علی گڑھ کے گریجوئٹ ، سائیکل سوار ، ایک دن انہی کے دفتر میں میری بیوی نے خوش خبری سنائی کہ سریاب روڈ کوئٹہ کے گھر میں چوری ہوگئی اور میں سامان کو اپنے خرچ پر رحیم یار خان لے جانے کی پریشانی سے دو تہائی آزاد ہو گیا ۔یہ وہ زمانہ تھا جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی کالج کے بیشتر اساتذہ جماعت اسلامی کے زیر اثر تھے اور بھٹو کے مخالف تھے تاہم مجھے خوش خبری دی گئی تھی کہ کمپٹرولر آفس کوئٹہ نے آخری تنخواہ کا جو سرٹیفکیٹ جاری کیا ہے،اگر اے جی آفس لاہور کچھ نذرانے کے بعد اسے قبول کرلے تو تنخواہ میں فرق پڑے گا بہرطور رحیم یار خان میں چار غیر معمولی باتیں ہوئیں ۔میرے استاد عزیز جاوید میرے مالک مکان ہوگئے اور شاید ہی کسی کرایہ دار کو ایسا مالک مکان میسر آیا ہو کہ جتنے مہینے تک تنخواہ نہیں ملی وہ میری متوقع تنخواہ کے برابر قرض دیتے رہے ۔دوسرے بھٹو نے اک دم پانچ سالانہ ترقیاں کالج کے تمام استادوں کو دے دیں
( نوکر شاہی کو تھوڑا سا جھٹکا دینے کیلئے ) تیسرے سلطان النیہان کا دوسرا وطن رحیم یار خان ہو گیا ان کے محل کے ساتھ ہی سڑکیں کشادہ ہوگئیں باغ باغیچے، سبزہ و گل میں اضافہ ہوا ۔ہمارے کالج کے عربی کے بزرگ استاد علامہ اللہ بخش قادری کی قدرومنزلت میںاضافہ ہوابادشاہ کے دوست کے طور پر اور انہوں نے ایک کم عمر لڑکی سے شادی کرکے بیشتر رفقا کو حسد میں مبتلا کردیا ۔ اور پھر 1974 میں وہ سیلاب آیا جس نے رحیم یار خان کے ہمسائے خان پور کا ڈبو دیا تب اپنے کلاس فیلو پروگرام پروڈیوسر فخر بلوچ کی وجہ سے ہیلی پیڈ پربھٹو اور جنرل ٹکا خان کی باہمی بات چیت اور ترجیحات کا اندازہ ہوا ۔ایک کو درختوں، ٹیلوں کے پناہ گزیں عزیزتھے دوسرے کو مویشی ۔ میں نے اپنے شاگردوں اور استادوں کے ساتھ شہر کی محافظ نہر کے پشتے مضبوط کرنے کیلئے کئی دن تک بطور رضا کار بھی کام کیا ۔1973 کے آئین کی منظوری کے بعد فخر بلوچ ریڈیو پاکستان ملتان کی طرف سے لوگوں کے تاثرات ریکارڈ،کرنے آیا تھا تب مجھے دکھ ہوا تھا کہ پڑھے لکھے افراد کو ہمیں ان کے حقیقی تاثرات اور خیالات بھی لکھ کے دینے پڑتے تھے تب ایئر مارشل اصغر خان بھٹو کے بڑے حریف بن کر سامنے آ رہے تھے ریاست بہاولپور کی بحالی کا بھی انہوں نے وعدہ کر رکھا تھا چنانچہ ہمارے کالج کے طالب علموں میں تحریک استقلال سے متاثرین کی تعداد بڑھ رہی تھی ۔ بے شک دسمبر 74 اور پھر دسمبر 75 میں میرے گھر میں دو چوریاں ہوئیں جسکے بعد میں کالج میں سخت کوش کھدر پوش مشہور ہو گیا اور اس،شہر میں میری وہ بیٹی ہوئی جس کا نام میں کرن رکھنا چاہتا تھا مگر اسلامیات کے محمد رفیق کا تجویز،کردہ نام ' نویرہ ' ہمارے دل کو روشن کر گیا کہ وہ اب ڈاکٹر نویرہ نشاط ہے۔