زمانہ طالب علمی میں کالج میں منعقد ہونے والے مختلف مقابلہ جات میں ایوارڈ وصول کرکے جب گھر واپس لوٹتا تو انداز تکلم میں شاہانہ طرز عود کر آتا تھا ناز نخرے اس قدر سربام ہوتے تھے جیسے دہلی کا لال قلعہ فتح کیا ہو۔ دوستوں کے ہمراہ تمام راستے اٹکھیلیاں کرتا اور شیخیاں بگھارتا گھر پہنچتا تو کچھ دیرتک تو گھر میں اس رعونت کا پاس رکھا جاتا اور جب عالم تخیلات میں ہم بھی اپنی فتح کا بھرپور جشن منا رہے ہوتے تھے مگر اس خوش فہمی اور خود پسندی کا محل اس وقت زمین بوس ہو جاتا جب کالج کی وردی تبدیل کرکے گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کا حکم صادر ہوتا، منہ بسورنے پر طنزیہ طعنہ ملتا کہ اب پڑھ لکھ کر کونسا شہباز شریف بن جانا ہے ؟یہ سنتے ہی میرے اندر چھپا بیٹھا شہنشاہ معظم دم دبا کر بھاگ جاتا اور میں سر پیٹ کر رہ جاتا اور اپنی تخیلاتی سلطنت چھن جانے پر من ہی من میں کڑھتے ہوئے سوچتا کہ یہ شہباز شریف روئے ارض کی کس بلا کا نام ہے جس کی دھونس جما کر میرا اس قدر تمسخر اڑایا جاتا ہے مگر بچپن میں من کی موجیں اور رنگین مزاجیاں کب کس عہدے مرتبے کو خاطر میں لاتی ہیں۔ شہباز شریف اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ ضرور تھے مگر یہ سوچ کر میں خود کو تسلی دیتا کہ وہ میری طرح کے کالج کے بہترین طالب علم تو نہیں رہےہوں گے۔ 13برسوں تک پنجاب کے شاہی تخت پر براجمان رہنے والا شہباز شریف کروڑوں دلوں پر راج کرتا رہا اس سے پہلے شاید ہی پنجاب کی دھرتی نے اس قدر متحرک وزیر اعلیٰ پایا ہو جسکی شاندار ایڈمنسٹریشن کی مثالیں اڑوس پڑوس میں بھی دی جاتی تھیں کیونکہ پنجاب کی تعمیروترقی کیلئےانہوں نے ان تھک محنت کی اور وہ پنجاب کے تمام تر شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں لانے والے پہلے وزیر اعلیٰ تھے ۔دو دہائیاں پنجاب کے اقتدار کی سیج پر شان و شکوہ سے جلوہ افروز رہے اور عوام کی طرف سے خادم اعلیٰ پنجاب کا اعزاز پایا۔ قسمت کی خوبی دیکھئے کہ ھما اس قدر اس کا طواف کرتا رہا کہ وہ اقتدار کی معراج کو جا پہنچے 11اپریل 2022ء کو قدرت نے انہیں خادم اعلیٰ پنجاب سے خادم پاکستان کی بلند وبالا سیج عطا کر دی اور بلاشبہ اس وقت یہ کانٹوں بھری سیج تھی کیونکہ حالات اس قدر دگر گوں تھے کہ ملک پاکستان صحرا میں کھڑا ایک بوسیدہ مزار کی صورت پیش کر رہا تھا، پاکستانی معیشت خلیج بنگال میں تیر رہی تھی اور پاکستان پر دیوالیہ
ہونے کے گہرے بادل چھائے ہوئے تھے ناقص خارجہ پالیسیوں کے سبب پاکستان تنہا ہوتا جا رہا تھا کئی دوست ممالک ہم سے سخت نالاں تھے جن میں سرفہرست سعودی عرب اور چین جیسے مسیحا ملک شامل تھے ،بیڈ گورننس کی بدولت ملکی انفراسٹرکچر تباہ حال تھا ہر سو انارکی پھیلی ہوئی تھی امپورٹ کی گئی نااہل حکومتی ٹیم نے وطن عزیز کے بخیے ادھیڑ ڈالےتھے ٹیکسٹائل انڈسٹریز ملک بدر ہو چکی تھیں، سی پیک اور گوادر پورٹ کے منصوبوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا تھا، عدم برداشت کا عالم یہ تھا کہ سیاسی پلیٹ فارم پر باپ بیٹا باہم دست وگریبان تھے، لسانی و صوبائی تعصب کی آگ بھڑک چکی تھی پاکستان داخلی و خارجی شدید خلفشار کی زد میں تھا ایسےحالات میں حکومت کا انتخاب سیاسی خودکشی کے مترادف تھا معیشت کی گہری خلیج ایک طرف اور مخالفین کی کمین گاہوں سے برسنے والے زہر آلود تیر ملکی و قومی حمیت کو چاک چاک کر ڈالتے تھے مگر شہباز شریف شاید بھنور میں غوطہ زن وطن عزیز کی ڈوبتی نائو کو ساحل آشنا کرنے کیلئے مخالف سمت سے اٹھنے والی موجوں سے الجھنے کا ارادہ کر چکے تھے اسی اثنا میں سال 2024ء کا متنازعہ الیکشن بھی ہو گیا وطن عزیز کی زخم خور دہ تاریخ میں یہ الیکشن نئی اسکیم کے طور پر متعارف نہیں ہوا تھا بلکہ ایک روایتی کھیل تھا ازل سے عوام جسکے تماشائی بنے ہوئے ہیں چنانچہ وہ اس الیکشن کے نتیجے میں نو منتخب شدہ کمزور سی سیاسی ٹیم کے ہمراہ وسیع خارزاروں میں چل نکلے۔ اقتدار کی ہوس آڑے آئی یا ملکی تعمیرو ترقی کے جذبے سے سرشار بلند عزائم ،یہ فیصلہ تو تاریخ کرے گی مگر یوں لگتا ہے کہ وقت اور حالات سے عبرت حاصل نہ کی گئی ہو کیونکہ اشرافیہ اور سرمایہ داروں کے نوکیلے دانت اب بھی میرے معصوم اور لاچار پاکستان کی شہ رگ میں پیوست ہیں جسکی بدولت غربت زدہ عوام کی چیخیں سربام ہیں۔ حالات کے انگاروں پر لیٹے عوام کو موہوم سی خنکی خارجہ تعلقات کی تنظیم نو اور آئی ایم ایف پروگرام کی ازسرنو بحالی کی صورت میسر آئی ۔موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسیوں کو اس لیے بھی سنگ میل قرار دیا جاسکتا ہے کہ ان نقائص پرقابو پا لیا گیا ہے پاکستان جن کی بدولت اپنی جغرافیائی اہمیت کھو رہا تھا ،جن میں سی پیک اور گوادر پورٹ سرفہرست ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ اور سنٹرل ایشیا پاکستان کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں صدر پیوٹن نے بھی برملا کہا ہے کہ پاکستان نارتھ سائوتھ انٹر نیشنل کوریڈور میں شامل ہو، روس اور پاکستان کے درمیان ایک بڑی تجارت کا آغاز ہو رہا ہے سنٹرل ایشیا بھی جس کا حصہ ہو گا برادر اسلامی ملک سعودی عرب کی بہت بڑی سرمایہ کاری پاکستان آ رہی ہے ورلڈ بینک کی 40ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی اپاہج ملکی معیشت کو مضبوط سہارا دے گی امید واثق ہے کہ 65فیصد سے زائد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے عوام تک اس کے اثرات ضرور پہنچیں گے ۔