جب بلوچستان کے اندر آستین کے سانپ، بلوچوں کے نام پر بلوچ دشمن دہشت گردوں کے حمایتی و سہولت کاراور ترقی و امن کےدشمن موجود ہیں تو صوبے میں قیام امن اور ترقی کی خواہش صرف خام خیالی ہی ہو سکتی ہے ۔ یہ ممکن نہیں کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کے وارثوں اور ان کے حمایتوں کے بغیر دوسری جگہ سے دہشت گرد آکر جدید اسلحہ سے واردات کر سکیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ہم باہر سے آنے والے دہشت گردوں کو روکنے کے لیے سیکورٹی اداروں کے افسران اور جوانوں کی قربانیاں تو دیتے رہتے ہیں اور ان خوارج کو جہنم واصل بھی کر دیتے ہیں لیکن گھر کے اندر گھر کو آگ لگانے والوں کو کچھ نہیں کہتے ۔ کوئی جمہوریت اور سیاسی جماعت کے نام پر اور کوئی نام نہاد انسانی حقوق کے نام پر کھلم کھلا فتنہ الخوارج کی حمایت میں پہلے تو بیانات دیتے تھے اور اب سڑکیں بند کر کے اور دھرنے دے کر خوارج اور صوبہ کے اندر دہشت گردوں کی حمایت کر رہے ہیں اور کسی مذاکرات کو نہیں مانتے ۔ دراصل ایسے لوگوں کو ٹاسک دیئے جاتے ہیںوہ پورا کئے بغیر وہ امن کیلئے بات چیت کر نہیں سکتے نہ ہی کرنا چاہتے ہیں۔
دہشت گرد بی ایل اے، بی وائی سی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور اختر مینگل سب دہشت گردوں کے حمایتی اور بلوچستان کے عوام کے مخالف ہیں۔ ان میں بی وائی سی تو کھل کے سامنے آگئی کہ وہ دہشت گردوں کی وارث ہے۔ اسپتال پر دھاوا بول کر جعفر ایکسپریس پر حملہ کر کے نہتے اور بے گناہ انسانوں کے قاتلوں کو جب سیکورٹی اداروں نے جہنم واصل کیا تو ان کی لاشوں کو چھیننے اور لے جانے والوں کو ابھی تک عبرتناک انجام سے کیوں دوچار نہیں کیا گیا اسی وجہ سے اب اختر مینگل جیسے لوگ ان کی رہائی کے لیے دھرنے دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بی وائی سی کی گرفتار خواتین یعنی ماہر نگ بلوچ اور سمی بلوچ وغیرہ بے گناہ ہیں ان کو فوری رہا کیا جائے اگر وہ دہشت گردوں کی لاشیں چھین کر لے گئی ہیں تو یہ کونسا جرم ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور کے مصداق اختر مینگل جو خود کو بلوچستان کے عوام کا نمائندہ ظاہر کرتےہیں درحقیقت بلوچ عوام اور صوبے کی ترقی کے مخالف اور بی ایل اے ، بی ایل ایف اور بی وائی سی کے حمایتی ہیں ۔ وہ کھلے عام ان دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اختر مینگل کا بھائی جاوید مینگل بیرون ملک بیٹھ کر لشکر بلوچستان نامی تنظیم چلا رہا ہے۔ یہ تنظیم بلوچستان میں بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، بے گناہ بلوچ شہریوں کے قتل ، اسکولوں ،اسپتالوں اور عوامی املاک پرحملوں میں ملوث ہے۔
اختر مینگل، بی ایل اے، بی وائی سی اور لشکر بلوچستان کے ساتھ مل کر بلوچستان میں دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں جس سے نہ صرف معصوم عوام متاثر ہو رہے ہیں بلکہ پاکستان کی سلامتی کو بھی شدید خطرہ لاحق ہے۔ پاکستانی قوم بالخصوص بلوچستان کے عوام کو ان کے اصل چہرے کو پہچاننا ہوگا اور دہشت گردی کے ان حمایتیوں کو مسترد کرنا ہوگا جو نام نہاد حقوق کی آڑ میں ملک دشمن قوتوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ بلوچستان میں دوسرے صوبوں سے کاروبار اور مزدوری کے لیے جانے والوں کی شناخت کر کے کیوں قتل کیا جاتا ہے اور یہ قتل عام صوبہ کے پی اور پنجاب کے مزدوروں کا کیا جاتا ہے۔کیا اختر مینگل وغیرہ نے بھی پنجابی اور پٹھان مزدوروں کے قتل عام کی مذمت کی ہے کیا کبھی ان بے گناہ مزدوروں کی حمایت اور دہشت گردی کے خلاف کوئی جلسہ جلوس اور دھرنادیا ہے شایدکبھی بھی نہیں بلکہ ان خوارج قاتلوں کےخلاف بیان تک جاری نہیں کیا۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بلوچستان کے پشتونوں کے علمبردار اور خیبر پختونخوا کے پٹھانوں کی حمایت کے دعویدار محمود خان اچکزئی نے بھی اس دھرنے میں حاضری دے کر اور تقریر کر کے کیا ثابت کیا۔ کیا بلوچستان کے پشتونوں اور کے پی کے پٹھانوں کی حمایت کے دعوے جھوٹے ثابت نہیں ہوئے ۔ اب وہ کس طرح وفاق کی مضبوطی کی بات کریں گے۔ ان کی ہمدردی اور دھرنے میں شرکت کر کے کیا یہ ان کی باتوں کی تردید نہیں ہے ۔ وفاق کے علمبردار محمود خان اچکزئی نے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے جو وفاق کو مانتے ہی نہیں۔ سنا ہے کہ پی ٹی آئی کے وفد نے بھی اختر مینگل کے مذکورہ دھرنے میں جاکر اظہار یکجہتی کیا ہے۔ اس جماعت نے بھی کبھی دل سے دہشت گردوں کی مخالفت نہیں کی بلکہ یہ تو انکو پاکستان میںلا کر بسانے والے ہیں ۔ وزیراعلیٰ کے پی علی امین نے ریاست کو چیلنج کرتے ہوئے افغانوں کو ملک بدر کرنے کے خلاف بیان دیا ہے اور بڑی ڈھٹائی سے کہا ہے کہ افغانوں کو ملک بدر نہیں کرنے دیں گے۔ یہ کیسا ملک ہے بلوچستان اور کے پی میں سب سامنے ہےلیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بلاشبہ ہمارےسیکورٹی ادارے مستعد ہیں اور دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے لیکن کیا ہم اپنے افسروں اور جوانوں کی قربانیاں دیتے رہیں گے اور خوارج کے حمایتیوں اور سہولت کاروں سے اجتناب کرتے رہیں گے، آخر کیوں ؟
پی ٹی آئی کی طرف سے بانی کے حکم پر پھر اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کاپروپیگنڈہ کیا جارہا ہے جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ بار بار ایسے شوشوں کی تردید اور کسی سے مذاکرات نہ کرنے کی وضاحت کر چکی ہے اور اب بھی اس جھوٹ کے سچ ہونے کا صفر فیصد بھی امکان نہیں ہے۔