ہر زمانے، ہر خطے اور ہر ملک میں اخلاقیات کے الگ پیمانے ہیں اور یہ پیمانے بھی وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں، انہی اخلاقی معیارات سے فحاشی کا مطلب جڑا ہوا ہے، انہی روایتی معیارات سے ہٹنے پر چھاپے پڑتے ہیں مگر اس بحث میں بنیادی معاملہ ثقافت کا ہے۔ ہمارا اصل تضاد ثقافت کی تشریح پر ہے۔ احمد ندیم قاسمی اور بائیں بازو کے دانشور متفق ہیں کہ ہماری ثقافت اور تاریخ کا آغاز موہنجو ڈارو سے ہوتا ہے۔ اب اس ثقافت میں ایک طرف پروہت بادشاہ موجود ہے تو دوسری طرف ننگی رقاصہ سمبارا جان بھی موجود ہے ،بحث یہ ہے کہ کیا اس ثقافت کو تسلیم کرتے ہوئے آج کی تہذیب اسی کے مطابق بنائی جائے؟ دوسری طرف ہمارے مذہبی اہل فکر ہیں جو تہذیب و ثقافت کو مذہب سے جڑا دیکھتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ اس خطے میں ہماری تہذیب محمد بن قاسم کے آنے سے شروع ہوئی، ہمارا موہنجو ڈارو کی تہذیب ،وہاں کے مذہب یا رقص سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی ہمیں اس طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف فکری تضاد نہیں یہ ایک عملی مسئلہ ہے۔ ایک بہت بڑے اسلامی ملک کے سرکاری اخبار سعودی گزٹ میں ایک چھاپے کی خبر شائع ہوئی جوایک ایسے گھر پر مارا گیا جس میں تصوف کی تعلیم دی جا رہی تھی، اخبار کے مطابق تصوف کی تعلیم دینے والوں کو چھاپہ مار کر موقع پر گرفتار کرلیا گیا یہ پرانی خبر میں نے ایک عمرے کے دوران پڑھی تھی اور پھر مجھے پاکستانی نژاد باکسر عامر خان کا جدہ میں دو تین سال پہلے ایک مقابلہ دیکھنے کا موقع ملا، اس میں امریکی اور برطانوی سنگرز نے موسیقی کا جادو جگایا اور میں نے نوجوان سعودی نسل کو ان گانوں پر رقص کناں دیکھا ۔میرے ساتھ اس محفل میں جنرل (ر) راحیل شریف، سابق وفاقی وزیر چودھری فواد حسین اور دوسرے دوست شامل تھے، سعودی عرب کے پہلے اخلاقی معیارات درست تھے یا آج کی تبدیلی درست ہے؟ کچھ اسی طرح کا معاملہ ہماری تہذیب و ثقافت اور بدلتے اخلاقی معیارات کا بھی ہے۔
آج کے لیجنڈ سعادت حسن منٹو پر ماضی میں فحش نگاری کا مقدمہ بنا اور مقدمہ کی پیروی کرنے والے کوئی اور نہیں علامہ اقبال کے سب سے باوفا دوست چودھری محمد حسین تھے، اس وقت چودھری محمد حسین کی بڑی واہ واہ ہوئی کہ وہ غیر اخلاقی اور فحش نگاری پر مبنی لٹریچر کے خلاف سینہ سپر ہیں اور آج منٹو کو سرکاری طور پر مانتے ہوئے اس کے جشن صدسالہ پر ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا ہے، اب پاکستانی ثقافت اور لٹریچر کا ہیرو چودھری محمد حسین کو مانیں یا منٹو کو؟ اصل بات اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ہے۔ فحاشی اور بدلتے اخلاقی معیارات کا مسئلہ صرف پاکستان یا اسلامی ممالک میں نہیں، برطانیہ امریکہ اور دنیا کے باقی ممالک بھی اس تضاد سے گزرے ہیں۔ مشہور برطانوی مصنف آسکر وائلڈ کو فحش نگاری پر باقاعدہ سزا ہوئی ۔آج کی دنیا میں اب یہ بات طے شدہ ہے کہ آرٹ پر پابندیاں ہمیشہ غلط سمجھی جاتی ہیں مگر سوسائٹی اور آرٹ کے تضاد کو حل کرنے کیلئے امریکی سپریم کورٹ نے ایک فارمولا طے کر دیا ہے اور وہ ملر کے مشہور مقدمے کے فیصلے میں تھا۔ فحاشی کو کیسے طے کرنا ہے !ملر کے تحت اس کے تین درجے ہیں۔ پہلا یہ کہ کمیونٹی کے معیار سے اس کا مواد حدسے بڑھا ہوا جنسی تو نہیں ہے جو معاشرے کے مطابق غیر مناسب ہو۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ یہ مواد ریاستی قانون کے مطابق فحاشی کے زمرے میں آتا ہو اور تیسرا یہ کہ اس میں اہم ادبی یا فنی، سیاسی یا تکنیکی قدروقیمت نہ ہو۔ میری رائے میں کسی مخصوص زمانے میں فحاشی کو جانچنے کا اس سے بہتر کوئی معیار نہیں۔ دنیا بھر میں تخلیق کار زمانے سے آگے چلتے ہیں مگر زمانہ انہیں اس قدر آگے نہیں جانے دیتا کہ وہ کسی نئی فضا میں چلے جائیں، اسی لیے معاشرہ انہیں روکتا ہے۔ صحافی تو معاشرے سے آگے جانے کے باوجود معاشرے سے نہ تو الگ ہو سکتا ہے نہ زیادہ الگ سوچ سکتا ہے۔
ویسے کہنے کو تو جوش ملیح آبادی کی ’’یادوں کی برات‘‘ کو، عصمت چغتائی کے افسانے ’’ لحاف‘‘ کو اور حتیٰ کہ اشفاق احمد جسے صوفی کے ’’سفر در سفر‘‘ کے اندر کہانی کو بھی فحش قرار دیا جاتارہا ہے لیکن ملر (MILLER)کے مقرر کردہ معیار کے مطابق چونکہ ان میں ادبی اور فنی رنگ ہے اس لئے کبھی ان ادبی شہ پاروں پر پابندی کی بات تک نہ ہوئی۔ حالیہ دنوں میں لاہور کے تھیٹرز پر چھاپوں میں بنیادی غلطی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے۔ ڈرامے کا مواد پہلے سے منظور شدہ ہوتا ہے اگر وہاں موجود ادارے مواد سے ہٹنے والوں سے مل جائیں تو انہیں سزا ملنا اور ان کا پہلے احتساب کرنا ضروری ہے۔ کھلی سڑک مل جائے اور گاڑی دوڑنے والی ہے تو کون کافر تیز نہیں چلائے گا غلطی تیز گاڑی چلانے والے کی تو ہے مگر اسے قانون کا ڈر نہ ہو یا قانون نافد کرنے والے بکے ہوئے ہوں تو پھر شائقین اور ڈرائیور گاڑی کی تیز رفتاری سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ تھیٹر آرٹسٹوں کی غلطی ضرور ہے کہ وہ سکرپٹ سے ہٹتے ہیں مگر ان کو سکرپٹ تک محدود رکھنے کے ذمہ داروں کو اصل سزا ملنی چاہئے۔ وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری فن وثقافت سے جنوئن محبت کرتی ہیں انہوں نے فنکار سپورٹ فنڈ کو دوگنا کر دیا ہے وہ فن و ادب کا فروغ بھی چاہتی ہیں لیکن ان کی طرف سے، تھیٹرز پر چھاپے قانون کے نفاد کیلئےجتنے بھی ضروری ہوں، اس کیلئےقانون کو بہتر بنانے اور اسکے نفاذ کو یقینی بنانا زیادہ بہتر طریقہ ہو گا۔ یاد رہے کہ ایک ہیرا منڈی بند کرنے سے ہر بستی میں ایک نہ ایک مکان ہیرا منڈی بن جاتا ہے۔ محمد تغلق نے اسی لیےہر چھائونی کے ساتھ عیش آباد بنایا تھا۔ جب سے دنیا بنی ہے، گناہ ہو رہے ہیں ،ہوتے رہیں گے، البتہ دنیا نے ان کو روکنے کیلئے بہتر سے بہتر قوانین کو ہی واحد حل قرار دیا ہے زور زبردستی، چھاپے کام نہیں آتے۔ ضیاالحق کے زمانے میں بازار حسن بند کر دیا گیا ،کیا اس سے رقص بند ہو گیا، کیا اس کے بعد گناہ ختم ہو گئے بلکہ یہ اور پھیل گئے۔ عظمیٰ بخاری کے تھیٹر کو بہتر بنانے کے جذبے کو سلام، گندا تھیٹر اس دن ختم ہو گا جس دن اچھے تھیٹر کے شائقین گندےتھیٹر کے شائقین سے بڑھ جائیں گے، جس دن آباد شہر کے تھیٹرز ایسا مواد دیں گے جو گندے تھیٹر کے کمزور مواد کو شکست دے دیگا۔ ادب اور کلچر کو اس کے اچھے یا گندے پہلو سے نہیں اس کے معیار سے ناپا جاتا ہے منٹو گندگی کا ذکر بھی اس معیار سے کرتا ہے کہ وہ ادب بن جاتا ہے، جوش اپنے معاشقوں کا ذکر اس ذوق سے کرتا ہے کہ وہ ’’یادوں کی برات‘‘ کی نثر اسکی شاعری سے بھی زیادہ مقبول ہو جاتی ہے۔
قصور اور لاہور میں ڈانس پارٹیوں پر چھاپے کے پیچھے MORAL POLICING، پولیس کی پسماندگی اور سازش ہے، کیا ہم پاسدارانِ انقلاب، متوئوں یا طالبان کے ملک میں رہ رہے ہیں؟ اگر تصویر چھپنے والی ان لڑکیوں میں سے کسی کا غیرت کے نام پر قتل ہوگیا تو اسکی ذمہ داری چھاپے مارنے والے پر ہوگی۔ اسلام میں گناہ کو چھپانا، چادر، دیواریکو پامال کرنا اور اس طرح خواتین کو سرعام بدنام کرنا کہاں جائز ہے، کوئی تو بتائے؟