(گزشتہ سے پیوستہ)
آج میں احمد ندیم قاسمی اور ایک خاتون کے حوالے سے اپنی یادداشتیں قلمبند کرنا چاہتا ہوں۔ میرے کچھ بزرگ اور ہم عصر ایسے ہیں جو دنیا سے کوچ کر چکے ہیں مگر وہ آج بھی میرے دل میں آباد ہیں۔ ان میں سرفہرست احمد ندیم قاسمی ہیں۔ آج بھی بیٹھے بیٹھے پہلے ان کی شکل میری آنکھوں کے سامنے آتی ہے اسکے بعد انکی آواز کانوں کو سنائی دینے لگتی ہے۔ اتنا بڑا افسانہ نگار اور شاعر پکی ٹھٹھی میں دس مرلے کے ایک گھر میں رہتا تھا۔جس کے ڈرائنگ روم میں مجھے وہ سازو سامان بھی کبھی نظر نہیں آیا جو ان سے کم تر لوگوں کے گھروں میں نظر آتا ہے، میں جب کبھی انکے گھر جاتا تو گھر کی Bell(بیل) پر کوئی ملازم نہیں وہ خود باہر آتے ۔ انکے پاس کوئی کار نہیں تھی، وہ رکشوں میں سفر کرتے۔ بعد ازاں جب مجلس ترقی ادب کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے تو انہیں ایک کار ملی اور یہ کار بھی منوبھائی، میں اور تیسرا نام یاد نہیںآ رہا، وزیر اعلیٰ سے ملاقات کے نتیجے میں مل سکی اور مشاہرے میں بھی کچھ اضافہ ہوا۔ آج ہمیں ادب میں جتنے بڑے نام دکھائی دیتے ہیں ان کا تعارف ندیم صاحب کے ادبی مجلہ ’’فنون‘‘ کی وساطت سے ہوا، میں وہ سب نام گنوانے بیٹھ جائوں تو بہت سی باتیں رہ جائیں گی۔ میں اور میرے ہم عمر اور میرے سینئر ندیم صاحب کے دفتر میں اس طرح آتے جاتے جیسے کسی بزرگ سے کچھ سیکھنے کیلئےعقیدت مند کسی آستانے پر حاضر ہوتے ہیں۔
مگر پھرایک وقت ایسا آیا کہ ان کی ایک عقیدت مند خاتون نے بھی وہاں آنا جانا شروع کردیا اور کچھ عرصے بعد محسوس ہوا کہ وہ خاتون ندیم صاحب کو انکے دوستوں سے محروم رکھناچاہتی ہے۔ وہ شاعرہ تھی، پڑھی لکھی تھی اور ذہین تھی۔ ندیم صاحب اسے بیٹی اور وہ انہیں بابا کہتی تھی مگر یہ ایسی بیٹی تھی جسے ندیم صاحب کی اپنے رفقا سے وابستگی پسند نہ تھی چنانچہ اس نے آہستہ آہستہ ندیم صاحب کو ان سے بدگمان کرنا شروع کردیا۔ ندیم صاحب اس پر اندھا اعتماد کرتے تھے جسکے نتیجے میں اس نے عملی طور پر ’’فنون‘‘ کی ادارت بھی ایک حد تک خود سنبھال لی۔ وہ ہم لوگوں کے سامنے عموماً اس نوع کی باتیں کرتی کہ بابا تو ذرا بھی اپنا خیال نہیں رکھتے، میں اگر انہیں خود پھل کاٹ کر نہ کھلائوں اور گھر کا بنا ہوا سالن نہ لے کر آئوں تو اللہ جانے یہ اپنا حال کیا کریں۔ جبکہ صورتحال اس سے بالکل مختلف تھی، ندیم صاحب جب کسی بیرون ملک منعقد ہونے والے مشاعرے سے واپس لاہور آتے تو یہ خاتون ایئرپورٹ سے سیدھا ان کو دفتر لے آتی اور وہ شام کو جب گھر لوٹتے تو انکے سامان اور جیب میں صرف وہی کچھ ہوتا جو بیرون ملک جانے سے پہلے تھا، ایک دن ندیم صاحب کے انتظار میں انکے دفتر بیٹھا تھا کہ کسی بات پر اس خاتون نے مجھ سے بدکلامی شروع کردی۔ اس روز مجھ سے برداشت نہ ہوا اور میں غصے کے عالم میں اٹھ کر باہر چلاگیا۔ اگلے روز میں ندیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا ندیم صاحب کا موڈ سخت آف ہے۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے عطاء صاحب آپ نے کل میری بیٹی کا دل بہت دکھایا ہے، اس سے معافی مانگیں۔ یہ سن کر میرا دماغ الٹ گیا اور میں نے عرض کی کہ میں نے نہیں اس نے میرے ساتھ بہت بدزبانی کی ہے۔ میں عمر میں بھی اس سے بڑا ہوں، آپ اس سے کہیں کہ وہ مجھ سے معافی مانگے، مگر میں نے محسوس کیا کہ ندیم صاحب کو اپنی بیٹی کی بات پر پختہ یقین تھا، چنانچہ میں مزید کچھ کہے سنے بغیر اٹھ کر باہر چلاگیا۔ اس سے کہیں زیادہ بڑا سانحہ ، ہاں میں اسے سانحہ ہی کہوں گا کیونکہ اعجاز رضوی جو بہت عمدہ شاعر اور خاکہ نگار ہے اسکو بھی اس خاتون نے بلاوجہ صرف برا بھلا نہیں بلکہ ’’حرام زادہ‘‘ بھی کہہ دیا۔ اعجاز رضوی نے اگلے روز ندیم صاحب سے شکایت کی اور بتایا کہ اس نے مجھے حرام زادہ کہا ہے، ندیم صاحب نے اسکے جواب میں جو کہا اس کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ اعجاز جو ندیم صاحب کی عزت اپنے باپ کی طرح کرتا تھا، انکا جواب سن کر آپے سے باہر ہوگیا اور ندیم صاحب سے اپنے تعلق کو وقتی طور پر بھول گیا۔
جو لوگ ندیم صاحب کو بہت قریب سے نہیں جانتے، انہوں نے اس حوالے سے ندیم صاحب پر تہمتیں بھی لگائیں جبکہ ایسا سوچنا بھی ندیم صاحب ایسے عظیم انسان کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ ندیم صاحب اس کو واقعی بیٹی سمجھتے تھے اور یوں کہہ لیں کہ وہ انکی زیادہ لاڈلی بیٹی تھی۔ وہ ہمہ وقت اسکی شادی کیلئے کوشاں رہتے، ہر مشاعرے میں اسے اپنے ساتھ لے کر گئے اور اس کی تعریفوں کے پل باندھے کہ شاید وہاں سے اس کیلئے کوئی مناسب رشتہ مل جائے۔ یہ خاتون یقیناً اچھی شاعرہ تھی، مگر قدرت نے اسے بہت زیادہ ’’پھلنے پھولنے‘‘ کا موقع دیا اور یوں یہ ’’بھاری بھرکم‘‘ شخصیت کی حامل بیٹی کسی شخص کو شادی پر آمادہ نہیں ہونے دیتی تھی۔خود اس نے بھی اپنے لئے زندگی کا ہم سفر تلاش کرنے کی کوشش کی مگر جو بھی اس کے قریب آیا وہ دوبارہ اس کے قریب نہ آیا کہ اسکی ساری گفتگو اپنی تعریف پر مبنی ہوتی تھی۔ آپ سب نے اختر حسین جعفری کا نام سنا ہوگا۔ وہ عہد حاضر کے ایک بہت بڑے نظم نگار تھے اور اسکے ساتھ انتہائی نستعلیق شخصیت کے حامل تھے۔ اللہ جانے ان پر کیاگزری ہوگی اور ایک دن انہوں نے میرے سامنے اس خاتون کیلئے جو زبان استعمال کی اس میں گندی گالیاں بھی شامل تھیں۔اس طرح ایک دفعہ پروین شاکر لاہور آئیں تو اپنے بابا سے ملنے انکے دفتر آئیں اور روتے ہوئے واپس گئیں۔ دوسری طرف ندیم صاحب اسکی شادی کیلئےامریکہ میں بھی کوئی رشتہ تلاش کرتے رہے، یہاں مشاعرہ تھا اور اس خاتون کو بھی اس مشاعرے میں مدعو کرایا گیا تھا۔ وہاں ایک صاحب یہ بھاری پتھر اٹھانے پر کچھ رضا مند نظر آئے مگر وہ یہ پتھر کوشش کے باوجود نہ اٹھا سکے۔میں شاید یہ سب احوال بیان نہ کرتا مگر جس نے میرے ادبی مرشد کی عزت کا خیال نہ رکھا میں کیسے اس کا خیال رکھ سکتا ہوں۔ندیم صاحب ہر دور کی سرکار سے دور ہی رہے چنانچہ انکی سگی بیٹی اور بہت خوبصورت شاعرہ ناہید قاسمی کے ایک کالج سے دوسرے کالج ٹرانسفر کا مسئلہ تھا، ندیم صاحب وزیر تعلیم کو ایک فون کرتے تو وہ اسی لمحے اسے حکم سمجھ کر تعمیل کرتا، مگر اسکی بجائے ندیم صاحب نے مجھے کہا اور وہ کام ہوگیا جبکہ اس درویش شخص کو وہ خاتون مختلف دفاتر میں لئے پھرتی رہی۔ میں اپنی یہ یادیں تحریر کرنے کے دوران مسلسل غم زدہ رہا اور ان لوگوں کے بارے میں سوچتا رہا جنہیں اپنے محسن و مربی کی عزت کا بھی خیال نہیں رہتا۔ ندیم صاحب کی ساری زندگی پارسائی میں گزری اور آخری سانس تک نیکی کے سوا انہوں نے کچھ نہیں کیا چنانچہ آج بھی وہ اپنے تخلیقی ادب کے حوالے سے زندہ و پائندہ ہیں اور ان کی انسان دوستی کا پھریرا ہمیشہ لہراتا رہے گا۔ (جاری ہے)