گزشتہ دنوں ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ اور اپوزیشن کی توانا آواز سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس کے ہاں کراچی سے آئے ہوئے علامہ حسن ظفر نقوی سے ملاقات ہوئی، علامہ حسن ظفر نقوی زمانہ طالب علمی میں این ایس ایف سے وابستہ تھے، انہوں نے معاشرے کی اونچ نیچ کو قریب سے دیکھا ہے، قوم کو درپیش موجودہ مسائل ان کی آنکھ سے اوجھل نہیں، انہوں نے دکھی دل سے ایک واقعہ بیان کیا، کہنے لگے کہ ’’جب چنگیز خان نے نیشاپور میں خون کی ندیاں بہائیں اور پورے شہر کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا تو اُس کے بعد وہ اپنی فوج کے ہمراہ ہمدان کی طرف چل پڑا، ہمدان کے لوگوں پر خوف طاری تھا، وہاں کے لوگ لرزتے دلوں اور سہمے ہوئے چہروں کے ساتھ چنگیز خان کا سامنا کرنے پر مجبور تھے۔ چنگیز خان نے ہمدان کے لوگوں کو ایک وسیع و عریض میدان میں جمع کیا، لوگ خوف سے خاموش تھے، بے بس لوگوں کے روبرو چنگیز خان نے بلند آواز میں اعلان کیا:میں نے سنا ہے کہ ہمدان کے لوگ بہت سمجھدار اور زیرک ہیں، فہم و شعور میں بے مثال ہیں۔ ہمدانیو تمہاری معاملہ فہمی زبان زد عام ہے، تمہارے بارے میں مشہور ہے کہ’’ہمہ دانی و ہیچ ندانی‘‘ اتنے زیرک ہو، سب کچھ جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں جانتے۔ دوران خطاب چنگیز نے لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا:میں تم سے ایک سوال کروں گا، جس کا جواب اگر صحیح اور معقول ہوا تو تمہیں امان ملے گی، تمہیں تحفظ ملے گا، لیکن اگر جواب غلط ہوا تو پھر یہی میدان تمہارا آخری ٹھکانا ہو گا۔ اب تمہاری تقدیر تمہارے فیصلے کی منتظر ہے، جواب غلط آیا تو سب کو تہہ تیغ کر دوں گا۔ چنگیز خان کی آواز میں ایسی دھاڑ تھی کہ ہر شخص کے دل میں خوف کی لہر دوڑ رہی تھی، خوف کی انہی لہروں میں چنگیز لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا:کیا میں خدا کی طرف سے آیا ہوں یا اپنی مرضی سے آیا ہوں؟ پورا مجمع ساکت تھا، کسی میں ہمت نہیں تھی کہ کچھ کہے کیونکہ جانیں سب کو عزیز تھیں، اسی خاموشی میں ہمدان کے دانشور، علما، بزرگان، پڑھے لکھے لوگ اور اہلِ حل و عقد ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوئے کہ چنگیز خان کا جواب کیا دیں۔ سب کے چہروں پر خوف اور اضطراب تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ سوال محض ایک امتحان نہیں بلکہ ہمدان کے لوگوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اہلِ دانش سوچ و بچار میں غرق تھے، ایک طرف شہر کی تقدیر کا سوال تھا اور دوسری طرف خوف کے گہرے سائے۔ اسی دوران اچانک ایک چرواہا جواب دینےکیلئے کھڑا ہوا، اس کی آنکھوں میں خوف نہیں، بصیرت تھی، وہ ہجوم سے آگے بڑھا، شہر کے لوگوں کی سانسیں رکی ہوئی تھیں، ہر کسی کے دل میں خوف تھا کہ یہ چرواہا چنگیز خان کے سوال کا جواب کیا دے گا؟ چنگیز خان نے اسے غور سے دیکھا تو چرواہے نے نہایت دلیری سے چنگیز خان کی طرف دیکھا اور کہا:نہ تو تم خدا کی طرف سے آئے ہو اور نہ ہی اپنی مرضی سے آئے ہو، تمہیں ہمارے اعمال یہاں لائے ہیں جب ہم نے اہلِ عقل و دانش کو نظرانداز کیا، بےوقوفوں، جاہلوںاور چاپلوسوں کو عزت، اختیار اور قیادت دی تو پھر یہی دن دیکھنا تھا، تم ہماری نادانی، ہماری بےبصیرتی اور ناانصافی کا نتیجہ ہو۔ چنگیز خاموش ہو گیا، اُسے بھی سچ کی اس گہرائی نے لمحے بھر کو ہلا کر رکھ دیا۔ چنگیز خان نے سب کو امن کا پیغام دیا، یوں ہمدان ایک چرواہے کے جواب کے سبب بچ گیا۔
یہ واقعہ دنیا کے دوسرے لوگوں کو پیغام دیتا ہے کہ قوموں پر چنگیز جیسے طوفان آسمان سے نازل نہیں ہوتے بلکہ یہ اُن کے اپنے ہاتھوں کے بوئے ہوئے بیجوں کا ثمر ہوتا ہے اسی کو مکافات عمل کہتے ہیں، مکافات عمل سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ گندم بوئو گے تو گندم کاٹو گے، جَو بوؤ گے تو جَو کاٹو گے یعنی جیسا کروگے ویسا بھروگے۔ اگر آج بھی ہم نے عقل و علم کو مقام نہ دیا، انصاف اور صداقت کا پرچم نہ تھاما تو چنگیز کے سائے لوٹ آئیں گے۔ چاہے نام کچھ بھی ہو، شکل کچھ بھی ہو، قومیں بندوق سے نہیں، بصیرت سے باقی رہتی ہیں۔ رحمان فارس کا شعر یاد آ رہا ہے کہ
جھیلا ہے میں نے تین سو پینسٹھ دکھوں کا سال
چاہو تو پچھلے بارہ مہینوں سے پوچھ لو