ربِ کریم نے کائنات کی ہر شے کو پانی سے بنایا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر پانی کا ذکر آیا ہے، کہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے آسمانوں سے پاکیزہ پانی نازل فرمایا، کہیں فرماتا ہے کہ میں پانی کے ذریعے مُردہ زمین کو زندہ کرتا ہوں اور کہیں فرماتا ہے کہ اگر تم راست باز بنو گے تو میں تمہیں مزید پانی عطا کروں گا۔ پانی کو رب تعالیٰ نے اپنی خاص نعمتوں میں شمار کیا ہے، پانی کی اہمیت کو جاننے اور سمجھنے کے لیے بَس اتنا ہی کافی ہے کہ انسانی زندگی اور کائنات کا وجود پانی کے بغیر ممکن ہی نہیں، مگر ہم پانی کی اہمیت سے مکمل طور پر غافل ہیں، ایک وقت تھا کہ ہمارے گاؤں میں صرف ایک ہی کنواں ہوا کرتا تھا جہاں خواتین جا کر کپڑے دھوتی تھیں اور اُس کنویں کا پانی لوگ پیتے بھی تھے اور اُسی سے کھیتی باڑی کی تمام ضروریات بھی پوری کی جاتی تھیں، پھر آہستہ آہستہ ترقی اور خوشحالی کا دور شروع ہوا لوگوں نے اپنے اپنے کنویں بنوا لیے، جب دیہات میں بجلی آگئی تو پانی کھینچنے والی مشینیں بھی آ گئیں، ہر گھر میں پانی کے بور آ گئے اور آج حالت یہ ہے کہ پرانے وقت کے گاؤں کے ایک کنویں سے پورے گاؤں کے لیے دس بار ہ دن استعمال ہونے والا پانی اب ایک گھر روزانہ کی بنیاد پر استعمال کر رہا ہے، کچی زمینیں اب تقریباََ ختم ہو چلی ہیں کھیتوں کھلیانوں کی جگہ مکانات، ڈیرے اور پلازے بن چکے ہیں بارش کا پانی زیرِ زمین جانے کے بجائے ضائع ہو جاتا ہے پانی کا ضیاع اس قدر بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے کہ جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، ایک طرف قوم کا پانی کی ناقدری، ضیاع اور بے احتیاطی کا رویہ اور مزاج اور دوسری جانب پانی کے تحفظ اور بچاؤ کے ناکافی منصوبے مستقبل قریب میں بڑے بحران کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔ پانی کے تحفظ اور بچاؤ کے حوالے سے ہماری پالیسی اور پلاننگ خاصی غیر موثر اور ناکام ہے، ہمارے ہاں بارشیں کم ہوں تو خشک سالی ہو جاتی ہے اور اگر بارشیں زیادہ ہو ں تو سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھنے کو ملتی ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں پانی کو محفوظ بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر بڑے بڑے ڈیم بنائے گئے ہیں، National Inventory of Dams کے مطابق امریکہ میں نوے ہزار سے زائد، کینیڈا میں پندرہ ہزار سے زائد، چائنا میں اٹھانوے ہزار سے زائد اور پڑوسی ملک میں پانچ ہزار سے زائد ڈیمز موجود ہیں جبکہ ہمارے ہاں چھوٹے بڑے ملاکر کُل ڈیمز کی تعداد بمشکل ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہے، منگلا ڈیم کی تعمیر 1967میں مکمل ہوئی، راول ڈیم 1962میں بنا جبکہ تربیلاڈیم 1967میں بنایا گیا ،ہماری حد درجہ بدقسمتی ہے کہ کالا باغ ڈیم ایک طویل عرصے سے بے مقصد سیاست کی نذر چلا آ رہا ہے، اس ڈیم کو بنانے کا منصوبہ 1950کی دہائی میں بنایا گیا جو کہ 3600میگاواٹ سے زائد بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کی بلندی 83میٹر اور لمبائی 500میٹر ہے، اس ڈیم کی ایکٹو کپیسٹی 7.52Km3 ہے جبکہ اس کا 286000km2 catchment areaہے، عالمی ماہرین کے مطابق کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے توانائی کے شعبے میں 4بلین ڈالر سالانہ کی بچت ہو گی جبکہ زرعی شعبے میں 132بلین روپے کی سالانہ بچت ہو گی ، یہ ڈیم سیلاب کی تباہ کاریوں کو روکنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرے گا، ماہرین کے مطابق یہ ڈیم 800000ایکڑ زمین کی آبیاری کرے گا، لاتعداد ملکی اور غیر ملکی ماہرین بشمول ورلڈ بینک اس ڈیم کی بے پناہ افادیت کے حوالے سے اپنی دو ٹوک اور حتمی رائے دے چکے ہیں جسے کوئی ناقدآج تک جھٹلا نہیں سکا، چند دن پہلے نہروں کی تعمیر کی حوالے سے بات ہوئی تو اُ س پر بھی سیاست اور مخالفت شروع ہوچکی ہے، من حیث القوم ہمیں علاقائی اور صوبائی سوچ سے نکل کر وسیع تر قومی مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرنا چاہیے، اپنی چھوٹی موٹی سیاست کی خاطر ملکی اورقومی مفاد کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، آنے والا وقت چیخ چیخ کر دستک دے رہا ہے کہ آئندہ چند سال میں پاکستان میں پانی کا سنگین ترین بحران سر اُٹھانے والا ہے، ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلوں کی وجہ سے بارشوں کے معمولات اور دورانیے یکسر تبدیل ہوتے چلے جا رہے ہیں، زیرِ زمین پانی کی سطح خوفناک ترین حد تک نیچے جا چکی ہے، سوال یہ ہے کہ ہم نے آنے والے وقت کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا تیاری کی ہے اب مزید تاخیر کی قطعاََ گنجائش نہیں، ہمیں صورتحال کی سنگینی کو فی الفور بھانپتے ہوئے قومی سطح پر مثبت سمت میں اقدامات کرنا ہوں گے، کالاباغ ڈیم سمیت ہر شہر میں دو دو چار چار ڈیم بنانے ہوں گے، کیا ہی اچھا ہو کہ ہم بارش کی اِک اِک بوند کو محفوظ کر لیں، پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے قوم کی تربیت اور تعلیم پر بہت زیادہ اور خصوصی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے، سکول کالج کے نصاب میں پانی کی اہمیت اور اُ س کی بچت کے طریقے کار کو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسلیں صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہوں، رسولِ کریم ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ پانی احتیاط سے استعمال کرو خواہ تمہارے سامنے دریاہی کیوں نہ ہو، آنحضور ﷺ تو وضو اور غسل کے لیے بھی پانی کی ضرورت سے زیادہ مقدار استعمال نہیں فرمایا کرتے تھے، آئیے آج ہم یہ عہد کریں کہ پانی کے مسئلہ پر ہم علاقائی، صوبائی اور سیاسی سوچ سے ہٹ کر قومی اور ملکی مُفاد کو ترجیح دیں گے اور پانی کی بچت کے متعلق شعور اور آگاہی کو ہر گھر اور ہر فرد تک پہنچایا جائے گا۔