• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاگتے رہو۔۔۔نیلم پری یا استبداد کا دیو!!!

غزہ کے باسیوں پر قیامت ڈھا دی گئی، دن رات مسلسل بمباری جاری ہے۔ غاصب اسرائیل کو تو اب بہانے بنانے کی بھی ضرورت نہیں رہی جب امریکہ بہادر اس کے ساتھ ہے۔عورتیں، بچے، بڑے بوڑھے بے دری سے مارے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پہ ایسی ہولناک ویڈیوز چل رہی ہیں کہ دیکھ کر روح تک کانپ جاتی ہے۔ روتے، بلکتے زخمی بچے جبکہ بِنا سر، آدھے دھڑ کے بچوں کی لاشوں پر، صبر کی تصویر بنے والدین صرف کلمۂ شکر ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ ظلم و ستم کی ایسی داستانیں دنیا کی تاریخ میں اس پہلے کبھی رقم کی گئیں نہ ہی اس سے بڑھ کر ظلم کیا جا سکے گا۔ ایسے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں جن سے شہیدوں کی لاشیں بھاپ بن کر ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہیں۔ نت نئے موذی و خطرناک ترین ہتھیاروں کی تجربہ گاہ بنا ہے یہ بھوکا،ننگا، بے سر و سامان غزہ! اہل ِعرب ہوں یا اہلِ اسلام سب اس گناہِ عظیم میں شریک ہیں کہ معصوم و مجبور،بے کس و لاچار فلسطینی بچوں کی لاشیں چیخ چیخ کر مسلمانوں سے سوال کر رہی ہیں کہ کیا ہم آپ کے بچے نہیں؟ کیا آپ کو اسلام کے ناطے نہیں تو انسانیت کے ناطے بھی ہمارا درد محسوس نہیں ہوتا؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم تو مر جائیں گے اے مسلمانوں تم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو کیا جواب دو گے؟ کیا تمہیں قرآن یاد نہیں یا تم نے پڑھا ہی نہیں! قرآن مجید فرقانِ حمید کہتا ہے "تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کہتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں اس بستی سے نکال جہاں کے لوگ بڑے ظالم جفا کار ہیں اور ہمارے لیے خاص اپنی طرف سے ایک محافظ و مددگار مقرر فرما" سورۃا نساء 4:75۔خدا خدا کر کے 18 ماہ بعد 10 اپریل کو علماء نے اسلام آباد میں فلسطین پر قومی کانفرنس کا انعقاد کیاجس میں جہادِ فی سبیل اللہ کے فتاوے دیے گئے اور اسکا فرض ِعین ہونا بتا کر بری الذمہ ہو گئے ،پھر مکمل خاموشی! کیا ایسے وقت میں 57 اسلامی ممالک پر جائز ہے کہ وہ عام کاروبارِ زندگی کی رنگینیوں میں گم رہیں اور فلسطینیوں پر بیتے مظالم بھول جائیں؟ کیا مسلم اُمہ واقعی بے ضمیر اور بے حس ہو چکی ہے۔اسی بے حسی کے باعث اسرائیلی مصنوعات کی بائیکاٹ تحریک بھی صرف جزوی طور پرکامیابی حاصل کر سکی۔ کیا عالمِ اسلام کو معلوم نہیں کہ اگلی باری ان کی ہے کہ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ ایک حقیقت ہے جسے پایۂ تکمیل پر پہنچانے کیلئے پورا زور لگایا جا رہا ہے اور اس میں کوئی مزاحمت و رکاوٹ بھی نظر نہیں آرہی۔ 

صدر ٹرمپ نت نئے شوشے چھوڑتے ہیں، کبھی ٹیرف عائد کرتے تو کبھی اسے عارضی طور پر معطل کر دیتےہیں۔ دنیا کو سانپ سیڑھی کے کھیل میں الجھا کر وہ اور ان کے ساتھی خوب مال بنا رہے ہیں۔ جمہوریت کی نیلم پری کا راگ الاپنے والے اب استبداد کے اس دیو سے کیسے نمٹیں گے؟ وقت بتائے گا کہ دنیا بمشکل ڈھائی صدی پرانے اس نظریے کے ہاتھوں کیسے خوار،ذلیل ورسوا ہوئی۔ جمہوریت وہ سراب ہے جو نو آبادیاتی نظام کی خستہ دیوار گرنے سے پہلے ظلم،جبر و استحصال کے نمائندوں نے براہ ِراست حکمرانی کے متبادل کے طور پر متعارف کرایا تاکہ وہ اپنے چنیدہ وفادار و خدمتگار مقامیوں کے ذریعے حکمرانی قائم رکھ سکیں۔ عوام کو جمہوریت کے سہانے خواب دکھلا کر یہ بین الاقوامی آقاؤں کے غلام انہیں ہر طریقے سے نچوڑتے ہیں۔انتخابی میدان میں سجے کھیل میں ایسی نورا کشتی کھیلی جاتی ہے کہ جس جماعت کو جِتانا مقصود ہو وہ ایسی باتیں، نعرے اور منصوبوں کا اعلان کرتی ہے جو عوام کی خواہشات کے مطابق ہوں جبکہ مقابل جماعت کو بھی مناسب نمائندگی دلوا کر مقابلے کی فضا برقرار رکھی جاتی ہے۔ بعینی امریکی جمہوریت میں بھی عوامی جذبات سے بھرپور طریقے سے کھیلا جاتا ہے۔ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف پہلی بار امریکی یونیورسٹیوں، عام شہری حتیٰ کہ یہودیوں تک نے احتجاجی مظاہرے کیے۔ حقیقتاً ما سوائے ایک دو اسلامی ممالک کے، مغرب و امریکی عوام اپنے فقید المثال احتجاجی مظاہروں سے عالمِ اسلام پر بازی لے گئے ۔ ٹرمپ نے یوکرائن و غزہ جنگ مخالف جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی انتخابی مہم میں یوکرائن اور غزہ میں جنگ بندی ، دنیا سے بہتر تعلقات، امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کے جھوٹے وعدےکیے۔ اپنی تقریبِ حلف برداری تک انہوں نے غزہ میں جنگ بندی بھی کروالی تھی لیکن جنگ بندی کا پہلا مرحلہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ ٹرمپ کے مزموم ارادے آشکار ہو گئے۔ عوامی رائے کے برعکس ٹرمپ نے غزہ پر بلا جواز اسرائیلی ہمباری کی اجازت دی، یمن پر حملوں کا طوفان مسلط کیا، پانامہ کنال پر دھمکیاں دیں کہ ہم فوج کے ذریعے چینی کمپنی سے قبضہ چھڑائیں گے، گرین لینڈ اور کینیڈا کو بھی الگ دھمکایا۔ دنیا بھر میں ٹیرف کی جنگ مسلط کر کے خصوصاً چین کے خلاف باقاعدہ معاشی جنگ کا آغاز کیا۔ اب اپنے ووٹرز کو بہلانے و بہکانے کے لیے مظلومیت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے کہ امریکہ مظلوم ہے، سب ملکوں نے اس سے فائدے اٹھائے، اپنی فوجیں بھیج کر امریکہ نے جن ملکوں کا دفاع کیا انہیں اتنے سالوں کا معاوضہ دیناچاہیے۔ چین اپنا مال امریکہ میں بیچ کر اتنا منافع لیتا رہا ہےلہٰذا اب اسے امریکہ کی مرضی کے داموں اس سے تیل و گیس خریدنا ہوگی ۔جبکہ درحقیقت امریکہ انہی فوجی اڈوں کے برتے دنیا میں اپنی اجارہ داری قائم رکھ سکا ہے ۔ٹرمپ نے یہ نہ بتایا کہ اسی اجارہ داری کی وجہ سےامریکی عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہوا اور پچھلی تین دہائیوں میں ان کی سالانہ آمدنی دگنی سے بھی زیادہ ہوئی ۔امریکی چھوٹی صنعت سازی اس لیے متاثر ہوئی کہ امریکی لیبر 16 ڈالر فی گھنٹے پر منافع بخش نہیں رہتی جبکہ امریکی صرف اعلیٰ درجے اور مہنگی صنعتوں میں کام کرتے ہیں۔ یوں انتظامی لحاظ سے امریکی سرمایہ کار چین، ویتنام، ہندوستان، کمبوڈیا، میکسیکو و دیگر ممالک میں اپنی صنعتیں لگا کر سستی لیبر سے امریکیوں کو اشیاء ضرورت فراہم کرتے تھے۔ ٹرمپ کے حالیہ اقدامات چین، یورپ، کینیڈا اور دیگر ممالک سے زیادہ امریکہ کے اپنےلیے نقصان دہ ثابت ہونگے۔ ٹرمپ پکے کاروباری ہیں وہ کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کریں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اپنے گھاٹے کا یا امریکہ کے؟

پاکستان نے 8اپریل کو معدنیات پر بہت بڑی کانفرنس رچائی جس کے مثبت نتائج بھی آ رہے ہیں لیکن ایسے وقت میں اس کانفرنس کا ہونا جب چین سے معدنیات کی برآمد پر مکمل پابندی اور یوکرائن سے معدنی وسائل پر امریکی معاہدہ نہ ہونے پر، پاکستان ایک بار پھر اپنے معدنی وسائل کے باعث امریکہ کے ریڈار پر آگیا ہے۔کہیں ٹرمپ افغانستان میں روس سے جنگ میں تعاون کے عوض ہم سے ہمارے معدنی وسائل ہی نہ مانگ لیں۔خدانخواستہ! یعنی" آ بیل مجھے مار"!

؎ گریز از طرزِ جمہوری غلام پختہ کاری شو

کہ از مغز دو صد خر فکرِ انسانی نمی آید

WhatsApp: 0313-8546140

تازہ ترین