عام طور پر ہم سب ایک روز بوڑھے ناتواں ہو جاتے ہیں۔ بوڑھے ناتواں ہو جانے کے بعد ہم سب عام طور پر بیمار پڑ جاتے ہیں۔ بیمار پڑ جانے کے بعد ہم سب عام طور پر مر کھپ جاتے ہیں۔ عام طور پر یہی ہم سب کا اختتام ہوتا ہے۔ تمت بالخیر… The end۔ ختم شد۔
اس قصہ، کہانی اور بیان میں عام طور پر تھوڑا بہت ردوبدل ہوتا رہتا ہے۔ عام طور پر ایک جیسے انجام والی کہانیوں کی کتھا ہو بہو ایک جیسی نہیں ہوتی۔ عام طور پر کہانیوں کے بیانیہ میں مختلف نوعیت کے اتار چڑھائو، مطلب اور منشا، شکل، صورت اور ہیئت بدلی ہوئی ہوتی ہے۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ عام طور پر ہم سب اپنے اپنے نصیب کی گردش ایام میں گھرے ہوتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ہم سب عام طور پر عام طور کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے ہوئے زندگی گزار دیتے ہیں۔
عام طور پرعبدالقدوس کاگا جب بھی بیمار پڑتا تھا اچھے پڑوسی اسے اسپتال میں ڈاکٹروں کے حوالے کر آتے تھے۔ اسپتال میں داخل ہونے کے تھوڑی دیر بعد طرح طرح کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر عبدالقدوس کاگا کو گھیر لیتے تھے۔ دل دماغ سے لے کر عبدالقدوس کاگا کے جگر، پھیپھڑوں اور گردوں کی پڑتال کرتے تھے۔ دوچار مہلک بیماریاں عبدالقدوس کاگا سے وابستہ کر دیتے تھے۔ عبدالقدوس کاگا وارڈ بوائز، نرسوں اور ڈاکٹروں کو فخر سے بتا دیتا تھا کہ اسپتال اور ڈاکٹروں کی بھاری بھر کم فیس کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا اور ناروے میں مقیم اسکے چار بیٹے آپس میں شیئر کرتے ہیں۔ عبدالقدوس کاگا کی بھیانک تنہائی کو چھوڑ کر چار بیٹے اسکے باقی ماندہ دکھ درد دور کر دیتے تھے۔ کیا کریں کہ تنہائی کا مرض پیسے سے دور نہیں ہوتا۔ عبدالقدوس کاگا کے مقابلے میں ولی محمد انڈر سیکرٹری ریٹائرڈ مزے میں تھا اور آخر کار چار بیٹوں کے کندھے پر آخری آرام گاہ تک پہنچا دیا گیا تھا۔ ولی محمد انڈر سیکرٹری ریٹائرڈ کے چار بیٹے اپنے والد کے ساتھ رہتے تھے اور باپ کے نام اور کام کی کمائی کھاتے تھے۔
عبدالقدوس کاگا اور ولی محمد انڈر سیکرٹری ریٹائرڈ کے مقابلے میں میری کتھا کچھ مختلف ہوتی تھی۔ اسپتال اور ڈاکٹروں کی بھاری بھرکم فیس بٹورنے والے اکائونٹس آفیسر آخر تک جان نہیں پاتے تھے کہ میرے چار برخوردار دنیا کے کس کس ملک میں رچ بس گئے ہیں۔ وہ جان نہیں پاتے تھے کہ میرے برخوردار لاابالی اور بے پروا کیوں تھے اور یہ کہ وہ میرا خیال کیوں نہیں رکھتے تھے۔ مگر اسپتال کے پرانے ملازم جانتے تھے کہ میرے برخوردار کسی بھی ملک میں آباد نہیں تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میرے ہونہار کٹر قسم کے محب وطن تھے اور وہ اپنے پیارے وطن کے علاوہ کسی دیار غیر میں سانس لینا گوارا نہیں کرتے تھے۔ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ سرے سے میرے بچے تھے ہی نہیں۔ میں کھلم کھلا اس دنیا میں آیا تھا اور کھلم کھلا اس خوبصورت دنیا سے اَن دیکھی دنیا کی طرف کوچ کر جائونگا۔ ستر برس کی رفاقت کے دوران نہ کبھی میری ہم دم نے اور نہ میں نے جاننے کی کوشش کی تھی کہ کیوں اور کس وجہ سے ہمارے بچوں نے اس دنیا میں آنے سے نابری وار لی تھی۔ اس سلسلے میں کبھی ہم نے ڈاکٹروں کو کھوج لگانے کی تکلیف نہیں دی تھی۔ اسپتال کی انتظامیہ جانتی تھی کہ اسپتال اور ڈاکٹروں کی فیس میری یونیورسٹی خندہ پیشانی سے ادا کرتی تھی۔ تھینک یو یونیورسٹی۔
ہم تینوں دوستوں عبدالقدوس کاگا، ولی محمد انڈر سیکرٹری اور مجھ پر اسپتال کے ڈاکٹر سوالوں کی بوچھاڑ کر دیتے تھے۔ ڈاکٹروں کے پاس سوالوں کا ذخیرہ نہیں ہوتا۔ وہ تقریباً ہر مریض سے ایک ہی نوعیت کے سوال پوچھتے ہیں۔ ایک ہی نوعیت کے سوالوں میں کچھ سوال ہو بہو ایک جیسے ہوتے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر پوچھتے ہیںکہ کیا آپ سوچتے ہیں؟ ڈاکٹروں کو جواب اثبات میں ملتا ہے، جی ہاں ڈاکٹر صاحب میں سوچتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں، سوچا مت کرو۔ تمہاری تمام بیماریوں کی وجہ تمہارا سوچنا ہے۔ سوچنا چھوڑ دو۔
عبدالقدوس کاگا اپنے چار بیٹوں کے بارے میں لگاتارسوچتا رہتا تھا۔ وہ سوچتا رہتا کہ کب اس کے بیٹے اس کی مالی مدد کرنا بند کر دیں گے۔ اور وہ پھکڑ اور کنگال ہو جائے گا۔ ولی محمد انڈر سیکرٹری کی سوچ عبدالقدوس کاگا کی سوچ سے مختلف ہوتی تھی۔ ولی محمد انڈر سیکرٹری سیانا تھا۔ اس نے اپنی بہت بڑی کوٹھی اپنے نام کر رکھی تھی۔ بیٹوں سےکہتا رہتا تھا کہ ذرا صبر کرو میرے بچو میرے مر جانے کے بعد میری املاک تم لوگ آپس میں بندر بانٹ کر لینا۔ بیٹے اسی لالچ میں باپ کے ساتھ لگے ہوئے تھے کہ بڈھا نہ جانے کب کوچ کر جائے اور دوسرا کوئی بھائی املاک کے بٹوارے میں ڈنڈی نہ مار دے۔
ڈاکٹر نے ایک روز مجھ سے پوچھا تھا، تمہارے نہ بال ہیں اور نہ بچےہیں۔ تم کیا سوچ کر پریشان رہتے ہو؟
میں ڈاکٹر کو ایک ہی بات بتاتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب ہم دونوں ستر برس سے ایک دوسرے کے ہم دم ہیں۔ اب تو ہم دونوں ایک ہی سانس لیتے ہیں اور ایک ہی سانس چھوڑ تے ہیں۔ پتہ نہیں چلتا کہ ہم دونوں کے دل ایک ساتھ کیسے دھڑکتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کا سہارا لے کر چلتے ہیں تو پتہ نہیں چلتا کہ ہم دونوں میں سے کون کس کے سہارے چل رہا ہے۔ ہم جیتے ہیں، مگر پتہ نہیں چلتا کہ کون کس کے لئے جی رہا ہے۔
ڈاکٹر میری بات غور سے سنتے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں ، کوئی ایک لمحہ ایسا بھی آئے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے نامعلوم سفر پر روانہ ہو جائیں۔