استاذی و مرشد جناب عارف وقار ایک اعلیٰ پائے کے مترجم بھی ہیں، وہ اُس مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں جو ادبی فن پاروں کا بامحاورہ ترجمہ کرنے کا قائل ہے، اُن کی رائے میں کسی افسانے یا ناول کا ترجمہ اسی صورت میں بھلا لگتا ہے اگر ترجمہ خوبصورت نثر میں کیا جائے نہ کہ مکھی پہ مکھی ماری جائے۔ استاد کی بات سر آنکھوں پر مگر اِس ہیچمدان نے (نہ جانے اِس لفظ کا کیا ترجمہ ہے) ترجمے کی ایک اور قسم بھی دریافت کی ہے جسے میں نے اصلی ترجمے کا نام دیا ہے۔ اِس کا خیال مجھے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پریس کانفرنس دیکھ کر آیا جس میں عالی مرتبت صدر نے انگریزی سے انگریزی میں ترجمہ کرنےکیلئے مترجم بغل میں بٹھایا ہوا تھا۔ دنیا نے ٹرمپ کی اِس حرکت کا کافی مذاق اڑایا مگر ’کچھ تو لوگ کہیں گے، لوگوں کا کام ہے کہنا‘ اور سچی بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ایک نئے شعبے کی بنیاد رکھی ہے جس کا اِس سے پہلے وجود نہیں تھا۔ گو کہ میں اِس کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر اللہ کو جان دینی ہے، ترجمے کی اِس صِنف کے جملہ حقوق بحقِ ٹرمپ محفوظ ہیں۔ ترجمے کی اِس تکنیک میں بے شک ایک ہی زبان کا استعمال ہوتا ہے مگر ترجمہ اِس اندا ز کیا جاتا ہے کہ اصل مدعا واضح ہو جاتا ہے۔ اسے ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اکثر اوقات جب ہمارے ہاں کوئی رشتہ طے کیا جاتا ہے تو کچھ اِس قسم کی گفتگو ہوتی ہے کہ ’’بھائی صاحب، آپ ہمیں اپنی بیٹی دے رہے ہیں، بھلا اِس سے بڑی اور کیا بات ہوگی، ہم نے تو اپنی ساری جمع پونجی بیٹے کی پڑھائی پر لگا دی، صرف اِس لیے کہ بچوں کا مستقبل بن جائے۔ آپ سے صرف اتنی درخواست ہے کہ ہماری برادری کچھ بڑی ہے تو اُس کیلئے ذرا زحمت کر لیجیے گا، باقی ہمیں کوئی جہیز نہیں چاہیے، ہم اِس قسم کی رسموں کے سخت خلاف ہیں، حق مہر بھی شرعی رکھیں، ہمارے دین میں بہت آسانی ہے، ہم نے خواہ مخواہ اسے مشکل بنا رکھا ہے۔ بیٹا آپ دونوں باہر جا کر چائے پیو، آپس میں کچھ بات وات لر لو، آخر زندگی تو اِن بچوں نے گزارنی ہے، کیوں بھائی صاحب!‘‘ اب اِس کا اردو میں ہی ترجمہ ملاحظہ فرمائیے: ’’جنابِ عالی بات یہ ہے کہ بیٹے کی پڑھائی پر ہمارا اچھا خاصا خرچہ ہوا ہے، وہ تمام انوسٹمنٹ ہم نے سود سمیت واپس لینی ہے، آپ کو منظور ہے تو ٹھیک ورنہ رشتے بہت۔ اور ہاں بارات سات سو لوگوں کی ہوگی، کھانا شاندار ہونا چاہیے، کہیں ہماری ناک نہ کٹوا دیجیے گا۔ اور حق مہر ابھی سے بتا دیا ہے، سوا بتیس روپے ہوگا، عین ٹائم پر لاکھوں روپے کا کھاتہ کھول کر نہ بیٹھ جائیے گا۔ اور سنو بیٹا، لڑکی کو باہر لے جا کر ٹھیک سے چیک کر لو، کہیں اِس کی ٹانگ میں لنگڑاہٹ تو نہیں، قد کاٹھ ٹھیک ہے، تمہارے ساتھ جچے گی یا نہیں، پھر اندر آکر اشارہ کر دینا، اُس وقت تک ہم اِن کی حیثیت کا مزید اندازہ لگاتے ہیں۔‘‘
اردو سے اردو ترجمے کی ایک اور مثال سمجھنی ہو تو کارپوریٹ اداروں کی میٹنگز کا احوال دیکھ لیں۔ ’’آج ہم نے آپ سب کو یہاں اِس لیے زحمت دی ہے کہ آپ کے سامنے وہ صورتحال رکھیں جس کا اِس وقت کمپنی کو سامنا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہماری سالانہ آمدن میں کمی واقع ہوئی ہے اور اِس کی مختلف وجوہات میں سے ایک وجہ ہمارے اخراجات کا مقرر کی گئی حد سے بڑھنا ہے۔ ہمارے مشیران کا کہنا ہے کہ اِن اخراجات میں کٹوتی ناگزیر ہے، یقیناً یہ ایک تکلیف دہ عمل ہوگا جس کا ہمیں سامنا کرنا ہوگا، لیکن خاطر جمع رکھیں، جونہی یہ مشکل مرحلہ گزر جائے گا، اور ہمیں یقین ہے کہ آپ سب لوگوں کے تعاون سے یہ جلد از جلد ممکن ہوگا، اُس وقت کمپنی اپنے وفادار ملازمین کو پالیسی کے مطابق ترجیح دے گی۔ اگلے چند دنوں میں آپ میں سے کچھ لوگوں کو کیرئیر کی تبدیلی کے حوالے سے ای میلز موصول ہوں گی، ہم اُن سب لوگوں کو شاندار مستقبل کی نوید سناتے ہیں اور اُن کیلئے دعا گو ہیں۔ نئے کیرئیر کی شروعات کے حوالے سے اگر کسی کو مدد درکار ہو تو وہ بلاجھجک کمپنی کے شعبہ انسانی وسائل سے رہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔‘‘ ترجمہ: ’’تم سب نالائقوں کو اِس لیے جمع کیاہے تاکہ تمہیں بتا سکیں کہ تمہاری تنخواہوں اور اللے تللوں کی وجہ سے کمپنی گھاٹے میں ہے، سیدھی بات یہ ہے کہ کمپنی کے سی ای او اور بورڈ آف ڈائریکٹرز جن میں مالک کی بیوی، بیٹا، سالہ اور بہنوئی شامل ہیں، کے علاوہ باقی تمام ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کی جا رہی ہے اور کچھ نکھٹو ملازمین کو فارغ کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ تمہارے معاہدے میں یہ شِق رکھی گئی تھی کہ ہم تمہیں کھڑے کھڑے فارغ کر سکتے ہیں، یہ ای میل تمہیں کر دی گئی ہے، لہٰذا اپنا سامان اٹھاؤ اور چلتے بنو۔‘‘
ترجمے کی اِس تکنیک کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ہم اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں اور کالموں کا اصل مقصد بھی جان سکیں گے۔ مثلاً دو دن پہلے انہی صفحات پر ایک کالم شائع ہوا تھا جس میں صاحبِ مضمون نے ایک مرتبہ پھر ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کی تجویز دی تھی اور لکھا تھا کہ ملک کو ’’ایک ایماندار، قابل اور پرُبصیرت قیادت وقت کی فوری ضرورت ہے۔‘‘ اِس کالم کا اگر ’ترجمہ‘ کیا جائے تو کچھ یوں ہو گا: ’’بخدمت جناب سپہ سالارِ اعظم، حضور کا اقبال بلند ہو، ظلِ سبحانی قائم و دائم رہیں، ایّام بسر بہ عیش و عشرت گزریں اور ہر طرف سے افاضہ عنایاتِ ایزدی ہو۔ گزارش ہے کہ فدوی ایک عرصے سے بیروزگار ہے اور اِس ضمن میں متعلقہ اداروں کو متعدد چٹھیاں اِرسال کر چکا ہے مگر کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ آپ کے حسنِ کلام اور بلاغت کے چرچے اب عام ہو چکے ہیں۔ یہ بات حضور کے علم میں ہوگی کہ فدوی نے پرویز مشرف کے دور میں اپنی وزارت کا حق کس دلجمعی سے نبھایا تھا اور ملک کے چپے چپے حتّیٰ کہ شاپنگ مالز میں بھی جامعات قائم کر دی تھیں۔ لیکن مشرف صاحب کے بعد، خدا اُن کی قبر کو نور سے بھر دے، جب سے یہ نام نہاد پارلیمانی جمہوریت کا دور واپس آیا ہے یوں سمجھئے کہ طوائف الملوکی واپس آ گئی ہے۔ خدارا، اِس ملک کو صدارتی نظام عطا فرمائیں تاکہ یہ ملک آپ کے زیر عاطِفَت دن دگنی رات چُگنی ترقی کرے۔ بندہ ناچیز کو اگر یہ سعادت حاصل ہوئی کہ حضور والا کے توسط سے ملک کیلئے کوئی خدمت انجام دے سکے تو سمجھوں گا کہ عاقبت سنور گئی۔ دعا ہے کہ حضور کی عزت، شوکت اور وقار میں اضافہ ہو۔ فدوی کا سی وی منسلک ہے۔ مشتاقِ دیدار و دعا گو۔ ڈاکٹر ع غ۔‘‘