• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

7 ؍اکتوبر2023ءکو حماس کے تقریباً چھ ہزار ارکان نے اسرائیل میں داخل ہو کر بارہ سو اسرائیلی شہری قتل کر دیے جبکہ عورتوں اور بچوں سمیت250 اسرائیلی شہری اغوا کرلیے۔ بظاہر اس حملے کا مقصد یرغمالیوں کے بدلے اسرائیل میں قید فلسطینیوں کو رہا کرانا تھا لیکن اس حملے کے ردعمل میں اسرائیل نے غزہ کی محصور آبادی پر چڑھائی کر دی۔ اٹھارہ ماہ سے جاری اس جنگ میں 61ہزار سے زائد فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ اورملحقہ علاقوں میں شہری بستیوں، اسکولوں اور ہسپتالوں سمیت وسیع رقبے کو ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا ہے۔ ضمیر عالم اس بہیمانہ نسل کشی پر سراپا احتجاج ہے۔ جنگ بندی کی متعدد کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کے رویے کو انسانی آلام سے بے حسی اور مضحک کا امتزاج کہنا چاہیے۔ کبھی وہ غزہ پر قبضہ کر کے اسے دنیا بھر کے امیر عیاشوں کیلئے تفریح گاہ بنانے کا اعلان کرتے ہیں تو کبھی خوراک، ادویات اور بنیادی انسانی ضروریات سے محروم بے سروساماں آبادی کو مختلف ملکوںمیں بانٹنے کی تجویز دیتے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نئی امریکی حکومت میں دورہ کرنے والے پہلے غیر ملکی رہنما تھے۔عرب ممالک کا رویہ اگرچہ اخفا کے پردوں میں ہے لیکن کچھ ایسا نامعلوم بھی نہیں۔ اردن، متحدہ عرب امارات، مراکش، آذر با ئیجان، بحرین اورترکی جیسے ممالک نے فلسطینیوں پر گزرنے والی قیامت کے دوران اسرائیل سے مکمل تجارتی اور سفارتی روابط قائم رکھے۔ سعودی عرب نے بھی کوئی فیصلہ کن پالیسی اختیار نہیں کی۔

پاکستان میں البتہ حسب روایت مذہبی لوگوں کے کاروبار میں تیزی آگئی ہے۔ 10اپریل کو اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس منعقد کی گئی۔ اسٹیج پر مولانا فضل الرحمن، مفتی تقی عثمانی اورمفتی منیب الرحمن فروکش تھے۔ مفتی تقی عثمانی نے پاکستان اور تمام اسلامی حکومتوں پر جہاد فرض قرار دیا۔ دیگر مقررین نے بھی اسی مصرعے پر گرہ لگائی۔ تان اس نکتے پر آکر ٹوٹی کہ پاکستان میں اسرائیلی مصنوعات اور کاروباری اداروں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ یہ وہی فروری 2006ءکی تمثیل کا تسلسل ہے جب لاہور اور پشاور سمیت مختلف شہروں میں غیر ملکی کاروباری اداروں پر حملے کیے گئے تھے۔ توجہ طلب زاویہ یہ ہے کہ پاکستان کے براہ راست علاقائی تنازع یعنی کشمیر پر اگست 2019ءمیں بھارت نے یک طرفہ اقدام کیا تو یہ پیران مغاں منقار زیرپر رہے۔ وجہ سادہ ہے۔ ون پیج کی حکومت تھی اور ہاتف کا اشارہ نہیں ملا تھا۔ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے پر ذرائع ابلاغ اور نام نہاد جہاد پسندوں کی تحریریں گن جائیے اور غزہ پر احتجاج میں تناسب نکال لیجئے۔ غزہ میں پاکستان کا کوئی جغرافیائی کردار ہے اور نہ معاشی صورتحال کسی مہم جوئی کی متحمل ہو سکتی ہے۔ پرجوش تقریروں سے خبروں میں زندہ رہنے کی تسکین البتہ کف غرض مند پر دھری ہے۔ دوسری طرف امریکی جیوش کانگرس نے اپنی پریس ریلیز میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور ہونے والی قراردادکے ضمن میں پاکستان کے ’مثبت کردار‘ کی بالخصوص تعریف کی ہے۔ پاکستان میں کراچی، میرپور خاص اور راولپنڈی سمیت مختلف شہروں میں غیر ملکی ریستورانوں پر حملے بھی کیے جا رہے ہیں اور مقدمات بھی درج ہو رہے ہیں۔ انجم رومانی نے کہا تھا ، ’ہے واقعہ کچھ اور حکایت کچھ اور ہے‘۔

1956 کا برس تھا۔ اصل حکومت اسکندر مرزا اور ایوب خان چلا رہے تھے۔ ستمبر 56ء میں حسین شہید سہروردی وزیراعظم بنا دیے گئے۔ نومبر میں سویز کا بحران اٹھ کھڑا ہوا۔ پاکستان میں ضمیر جعفری کا مصرع منطبق ہو رہا تھا۔ ’مسلمانوں کی طرح دفعتاً پرجوش ہو جانا‘۔ ایران میں بیٹھے اسکندر مرزا برطانوی وزیراعظم انتھونی ایڈن کو یقین دلا رہے تھے کہ پاکستان سویز بحران پر دولت مشترکہ سے الگ نہیں ہو گا۔ دوسری طرف سہروردی چین کے دورے سے بھاگم بھاگ کراچی پہنچے جہاں پندرہ ہزار مشتعل شہری وزیراعظم ہائوس کے باہر نعرہ زن تھے۔ آنسو گیس اور لاٹھی چارج میں گھرے سہروردی ایک گاڑی پر چڑھ کر اعلان کر رہے تھے کہ پاکستان دولت مشترکہ سے علیحدہ ہو رہا ہے۔ یہ معاملہ مصر سے براہ راست تعلق رکھتا تھا۔ 9نومبر کو پاکستان بھر میں ’یوم مصر‘ منایا گیا۔ سہروردی نے مصر کا دورہ کرنے کی تجویز دی جوجمال ناصر نے مسترد کر دی۔ مصر نے اقوام متحدہ کی امن فورس میں پاکستانی دستے کی شمولیت قبول کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ جمال ناصر نے عین اس ہنگام میں دہلی کا دورہ کر کے مسئلہ کشمیر پر بھارت کی حمایت کا اعلان کیا۔ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر بحث کے دوران مصر نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا۔ یہ تھا اسلامی امہ کا کل اثاث البیت نیز طاقت کا داخلی اور عالمی کھیل۔

مفتی تقی عثمانی ’جہاد‘ کا اعلان فرماتے ہیں۔ یہ وہی صاحب ہیں جن کے بارے میں فروری 1970ءمیں جب 103 مولویوں نے سوشلزم کو کفر قرا ر دیا تھا تو اس فتوے پر مفتی شفیع عثمانی کے دستخط کی وضاحت کرتے ہوئے محمد حسن عسکری نے کہا تھا کہ ’بات یہ ہے کہ مفتی شفیع صاحب کے ایک صاحبزادے انگریزی پڑھ گئے ہیں‘۔ مفتی تقی عثمانی کی انگریزی دانی پر تو سند مل گئی لیکن کیا انہوں نے پاکستان کا دستور یا بین الاقوامی قانون بھی پڑھے ہیں۔ پاکستان کے دستور میں جہاد کا کوئی ذکر نہیں۔ ملکی دفاع کا اعلان البتہ شق 245میں موجود ہے۔ بین الاقوامی قانون میں بھی دو ہی اصطلاحات ہیں۔ جارحیت اور دفاع۔ جارحیت ممنوع ہے اور اسکے خلاف دفاع کا حق ہر قوم کو حاصل ہے۔ قومی ریاست مذہبی تشخص سے متعین نہیں ہوتی۔ ساٹھ کی دہائی میں پی ایل او کے رہنمائوں میں جارج حباش اور لیلیٰ خالد بھی شامل تھے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کا تنازع ایک قوم کے اپنی زمین پر آباد ہونے کا بنیادی حق ہے۔ یہ مذہبی جھگڑا نہیں ۔اگرچہ حماس اور حزب اللہ نے اس تنازع کو مذہبی رنگ دے کر مظلوم فلسطینیوں کے مؤقف کا بین الاقوامی تشخص مجرو ح کیا ہے۔ ساٹھ ہزار فلسطینی جانوں کی قربانی سے تقی عثمانی اور فضل الرحمن کی خطابت تو چمک سکتی ہے لیکن فلسطین کے وہ بچے اب لوٹ کر نہیں آئیں گے جو پون صدی قبل چھوڑے ہوئے گھروں کی چابیوں کے امانت دار تھے۔

(مذکورہ تحریر کالم نگار کی ذاتی رائے ہے، کوئی صاحب اس کا مدلل جواب دینا چاہیں تو ہمارے صفحات حاضر ہیں)

تازہ ترین