پاکستان میں جو چند شعبے طویل عرصے سے حکومتی عدم توجہ کا شکار ہیں ان میں سیاحت کا شعبہ سرفہرست ہے۔ سیاحت کے فروغ کیلئے ہر حکومت نے ہی ماضی میں لمبے چوڑے دعوے کئے لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینے کے جتنے مواقع موجود ہیں اتنے شاید ہی کسی اور ملک کے پاس ہوں۔ اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے اس شعبے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے صوبے میں سیاحت کو فروغ دینے کیلئے170 سیاحتی مقامات اور ٹریلز کی تعمیر و مرمت اور بحالی کا فیصلہ کیا ہے جس سے ناصرف صوبے کی آمدن میں اضافہ ہو گا بلکہ عالمی سطح پر پنجاب اور پاکستان کا امیج بھی بہتر بنایا جا سکے گا۔ اس حوالے سے ابتک سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق پنجاب بھر میں آثار قدیمہ کے ساتھ مذہبی، تاریخی اور ثقافتی عمارتوں کی بحالی کے علاوہ ایکو ٹورازم کو فروغ دیا جائیگا۔ علاوہ ازیں قدیم تہذیب سے قربت کا احساس دلا کر سیاحوں کو راغب کرنے کیلئے ٹورسٹ ویلج بھی بنائے جائیں گے۔ اس حوالے سے ابتدائی طور پر جن سیاحتی مقامات کا انتخاب کیا گیا ہے ان میں ڈسٹرکٹ مال روڈ، وال سٹی آف لاہور، سکھ ثقافتی ورثہ، جی ٹی روڈ کی مغل یادگاریں، سالٹ رینج، بھاٹی گیٹ، ٹیکسالی گیٹ اور ایمن آباد گوجرنوالہ شامل ہیں، جہاں ٹورازم ٹریل قائم کی جائیں گی۔ اسکے علاوہ مختلف شہروں کے سیاحتی مقامات کو ٹور ازم کلسٹرکے طور پر ڈویلپ کیا جائے گا جبکہ گندھارا تہذیب سے متعلق گندھار ٹریل میں ٹیکسلا میوزیم، دھرما راچی قلعہ، جولیاں، سرکیپ اور گری قلعہ بحال کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ قدیم گوردوارے اور گرجا گھر بھی بحال کئے جائیں گے جبکہ ملتان کی لیونگ ہیر یٹیج سائٹ قلعہ کہنہ قاسم باغ کو وادی سندھ کی تہذیب کے نشان کے طور پر بحال کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں اُچ شریف میں زائرین کی سہولت کیلئے خصوصی ٹریل ڈویلپ کی جائیگی جبکہ چھانگا مانگا فارسٹ پارک اور لال سوہانرا نیشنل پارک کو ایکو ٹورازم کے فروغ کیلئے تیار کیا جائیگا۔ اس حوالے سے پنجاب ٹورازم اینڈ ہیریٹیج اتھارٹی ایکٹ 2025ء کی منظوری کے بعد پنجاب کی پہلی ٹورازم اینڈ ہیر یٹیج اتھارٹی قائم کرکے لاہور، ملتان، بہاولپور، چکوال اور جہلم سمیت صوبے کے دیگر شہروں میں بھی سیاحتی مقامات کی بحالی یقینی بنائی جائے گی۔ پنجاب حکومت کے مطابق ان سیاحتی مقامات کو عالمی معیار کے مطابق بنانےکیلئے فائیو سٹار ہوٹلز کی تعمیر بھی یقینی بنائی جائیگی تاکہ بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کو یہاں آنے پر راغب کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں پنجاب کی پہلی مکمل ٹورازم میگنی فیسینٹ ایپ بھی تیار کی گئی ہے جسکے ذریعے 170سیاحتی مقامات کی ورچوئل سیر کی جا سکے گی۔ اس ایپ پر سیاح اپنے پسندیدہ سیاحتی مقام اور وہاں دستیاب سہولیات سے متعلق بھی چیٹ بوٹ کے ذریعے معلومات حاصل کر سکیں گے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ثقافتی ورثے کے تحفظ اور بحالی کے حوالے سے والڈ سٹی لاہور اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کامران لاشاری نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے جس طرح لاہور اور اسلام آباد میں ثقافتی ورثے کی بحالی کے ذریعے ٹورازم کو فروغ دیا ہے وہ پاکستان میں ثقافتی ورثے کے تحفظ اور سیاحت کےفروغ کے حوالے سے ایک رول ماڈل ہیں اور امید ہے کہ پنجاب میں سیاحت کے فروغ کیلئے کی جانے والی حالیہ کاوشوں میں بھی وہ اہم کردار ادا کرینگے۔ اس کالم کے مستقل قارئین کو یاد ہو گا کہ میں پہلے بھی متعدد مرتبہ اس امر کی نشاندہی کر چکا ہوں کہ پاکستان میں سیاحت کا بہت زیادہ پوٹینشل موجود ہے۔ خاص طور پر پنجاب ماضی میں سکھ، ہندو اور بدھ مت کے ماننے والوں کا مرکز رہا ہے اور اب بھی یہاں ان کی مذہبی اور ثقافتی عمارتوں کی بڑی تعداد موجود ہے جنکی بحالی سے یہاں مذہبی سیاحت کا فروغ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اس لئے اگر پنجاب حکومت سیاحت کے فروغ کیلئےاس پہلو پر بھی توجہ دے تو خاطر خواہ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے سکھ کمیونٹی کی دلچسپی سب سے زیادہ ہے کیونکہ انکے اہم ترین مذہبی مقامات پنجاب میں موجود ہیں۔ چنانچہ وہ کمیونٹی اپنے مذہبی مقامات کی زیارتوں کیلئے ناصرف پاکستان آنے میں سب سے زیادہ دلچسپی رکھتی ہے بلکہ وہ ان مذہبی مقامات کی سیاحت کے سلسلے میں سہولیات کی فراہمی اور دستیابی یقینی بنانےکیلئے بھی سرمایہ کاری کرنےکیلئے تیار ہے۔ اس حوالے سے اب حکومتی سطح پر بھی اقدامات کا آغاز ہو چکا ہے اور ان کیلئے آن لائن ویزوں کے اجراء کی سہولت فراہم کر دی ہے۔ علاوہ ازیں سکھ ثقافتی ورثے کی بحالی کیلئےسرمایہ کاری کے حوالے سے سکھ کمیونٹی کی جانب سے متروکہ وقف املاک اور مقامی کاروباری افراد سے ملاقاتیں بھی جاری ہیں۔ اس حوالے سے بعض تاریخی عمارتوں کی بحالی اور انکے قریب ہی عالمی معیاری کی رہائشی سہولیات فراہم کرنے پر کام کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے مزید یہ کیا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب میں حج اور عمرہ پر جانے والے گروپس کو خدمات فراہم کرنے والی پاکستانی ٹورازم کمپنیوں کو یہ ذمہ داری دی جا سکتی ہے کہ وہ سکھ اور ہندو زائرین کو ان کے مذہبی مقامات کی زیارتیں کروائیں۔ یہ کمپنیاں بیرون ملک سے آنے والے سکھ اور ہندو ذائرین کے ہوٹلوں میں قیام سے لے کر مذہبی مقامات تک ان کی آمدورفت کے انتظامات کرنے اور واپس روانگی تک کے تمام مراحل کو حکومتی ہدایات کے مطابق مکمل کرنے کی ذمہ دار باآسانی ادا کر سکتی ہیں۔ اس سے ناصرف حکومت کی انتظامی مشینری پر بوجھ کم ہو گا بلکہ مقامی طور پر ٹورازم انڈسٹری کو بھی فروغ ملے گا اور اس شعبے میں سرمایہ کاری اور روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہونگے۔