(گزشتہ سے پیوستہ)
اگر سندھ طاس معاہدے کا بغور جائزہ لیا جائے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس معاہدے میں بھی عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی کیونکہ عالمی قوانین تو یہ کہتے ہیں، اگر کوئی دریا ایک سے زائد ملکوں یا صوبوں سے گزرتا ہو تو پانی کا آخری مقام تک پہنچنا ضروری ہے، کیا آج ستلج، راوی اور بیاس کا پانی آخری مقام تک پہنچ رہا ہے؟ یقیناً نہیں۔ جو تین دریا بیچ دیئے گئے ان کے بدلے میں پاکستان کو کیا ملا؟ پاکستان کو صرف چناب اور جہلم دریا دیئے گئے، وہ تو بھارت سے آ ہی نہیں رہے، وہ تو مقبوضہ علاقے سے آ رہے ہیں، پاکستان کا مقدمہ تو راوی، بیاس اور ستلج پہ ہونا چاہئے تھا جو ہما چل پردیش سے نکلتے ہیں، جہلم اور چناب تو ویسے ہی مقبوضہ کشمیر سے آتے ہیں۔ بھارت نے ان دو دریاؤں کو بھی نہیں بخشا، چناب پر بگلیہار ڈیم سمیت کئی چھوٹے ڈیمز بنائے جبکہ جہلم پر کشن گنگا ڈیم بنا کر پانی کا رخ موڑ دیا، ان دو دریاؤں سے بھی پاکستان کو پورا پانی نہیں مل رہا۔ اب باقی تین دریاؤں کی صورتحال دیکھ لیں، بھارت نے ستلج اور بیاس کو اکٹھا کر کے فیروز پور کے قریب بھاکھڑا ڈیم جبکہ راوی پر مادھو پور ڈیم بنا رکھا ہے، یہ تین دریا جب پاکستان میں داخل ہوتے ہیں تو ان میں پانی کی بجائے دھول اڑتی ہے، اب یہ تین برساتی دریا ہیں، دو دریاؤں میں پانی کم آتا ہے، اس طرح سارا بوجھ دریائے سندھ پر پڑتا ہے۔ طاقتوروں کے فیصلوں کی سزا صرف سندھ نہیں، پنجاب بھی بھگت رہا ہے۔ راولپنڈی ڈویژن بارانی ہے، گوجرانوالہ اور لاہور ڈویژن کے کئی اضلاع کا سینہ چیرتی ہوئی نہریں گزرتی ہیں مگر وہاں کے لوگ ان سے ایک بوند پانی حاصل نہیں کر سکتے۔ پنجاب کا طاقتور حصہ تو نہری پانی سے محروم ہے۔ پنجاب کے اضلاع راولپنڈی، مری، اٹک، چکوال، تلہ گنگ، خوشاب، میانوالی، جہلم، گجرات، منڈی بہاوالدین، حافظ آباد، گوجرانوالہ، وزیر آباد، نارووال، سیالکوٹ، قصور، لاہور، ننکانہ صاحب، شیخوپورہ اور ملتان سمیت کچھ اضلاع نہری پانی سے محروم ہیں۔
پنجاب کے تمام دریا پنجند کے مقام پر دریائے سندھ کا حصہ بنتے ہیں مگر افسوس ان میں تین خشک دریا اور دو کم پانی والے دریا شامل ہیں، پانی کی قلت کا یہ خمیازہ سندھ کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ پاکستان میں اس وقت اریگیٹڈ لینڈ دو لاکھ دو ہزارا سکوائر کلومیٹر ہے، ہمارے پاس کینالز ساٹھ ہزار کلومیٹر پر محیط ہیں جبکہ پندرہ لاکھ کلومیٹر واٹر کورسز ہیں جن کے ذریعے نہروں سے زمینوں تک پانی پہنچایا جاتا ہے، یہ سب کچھ فلڈ اریگیشن سسٹم کے تحت ہو رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے پاس دنیا کا سب سے بڑا مربوط نہری نظام ہے، رقبے کے اعتبار سے بھارت کے پاس بڑا نہری نظام ہے مگر وہ مربوط نہیں۔ پاکستان میں نہری نظام پر بہت کام ہوا کیونکہ جب انگریز یہاں سے گیا تو ہمارے پاس صرف سکھر بیراج تھا، نہریں بائیس ہزار کلومیٹر پر محیط تھیں، پاکستان بننے کے بعد ہم نے 38 ہزار کلومیٹر پر محیط نہریں مزید بنائیں، اب ہمارے پاس ساٹھ ہزار کلومیٹر پر محیط نہریں ہیں اور یہ سارا نہری نظام انتہائی مربوط ہے۔1991ء میں ہمارے پاس 124 ملین ایکڑ فٹ پانی تھا، اب ہمارے پاس 109ملین ایکڑ فٹ پانی ہے۔ 15 ملین ایکڑ فٹ پانی اس لئے کم ہوا کہ بھارت نے دریاؤں پر ڈیم بنائے، اب ہمارے پاس جو 109 ملین ایکڑ فٹ پانی ہے، اس سے 109 ملین ہیکٹر زمین آباد ہو سکتی ہے جبکہ ہمارے پاس 79 ملین ہیکٹر زمین ہے، یعنی ہمارے پاس پانی اب بھی زیادہ ہے مگر پھر مسئلہ کیا ہے؟ لڑائی کیوں ہے؟ ان مشکلات کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم ڈیڑھ سو سال پرانا فلڈ اریگیشن سسٹم چلا رہے ہیں، ہمیں اریگیشن کے ماڈرن ذرائع اپنانے چاہئے تھے جو ہم نہ اپنا سکے۔ اب بھی ہمیں نئی نہریں بنانے کی بجائے ماڈرن ذرائع یعنی سپنکلر، ڈرپ اریگیشن اور پچر اریگیشن سسٹم کی طرف جانا چاہئے۔ خاص طور پر چولستان سمیت باقی صحرائی علاقوں میں رین واٹر ہارویسٹ سسٹم استعمال کرنا چاہئے، قرضے لے کر نہریں بنانا کہاں کی عقلمندی ہے، رین واٹر ہارویسٹ سسٹم کے تحت چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنائے جائیں، اس کے پانچ فوائد ہوں گے۔
1۔ زمین میں پانی کی سطح بلند ہو جائے گی۔2۔ اریگیشن بہتر ہو گی۔3۔ انسانوں اور جانوروں کے لئے پانی ہو گا۔4۔ درخت اگیں گے ۔5۔ کھاد کا استعمال بھی کم ہو گا۔موجودہ حکومت نے نہروں کی تعمیر کیلئے 230 ارب روپے مختص کئے ہیں، یہ 230 ارب نہریں بنانے کی بجائے انسانوں کی فلاح پر خرچ کئے جائیں، آبپاشی کے جدید نظام کو اپنایا جائے کیونکہ اگر نئی نہریں بنائی گئیں تو سندھ پانی سے محروم ہو جائے گا، ویسے بھی ڈیلٹا کے لئے دریائے سندھ میں پانی ہونا ضروری ہے ورنہ سمندر سندھ کی لاکھوں ایکڑ اراضی نگل جائے گا۔ شاید بہت کم لوگوں کو پتہ ہو کہ کراچی کو ملنے والے 85فیصد پانی کا سورس دریائے سندھ ہے۔ سندھ کے ساتھ ظلم نہ کریں، یہ چھ کروڑ انسانوں کی زندگی کا سوال ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سندھ کے لوگ اسلم گورداسپوری کی زبان میں یہ کہیں کہ
اس سرزمیں کے ساتھ محبت کے جرم میں
جو عاشقوں کے ساتھ ہوا کچھ نہ پوچھئے