• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
غیرت کے نام پر قتل و غارت کو روکنے کے لئے نئی قانون سازی کی ضرورت کو خود حکومت نے تسلیم کرلیا ہے۔ نئی قانون سازی کی ضرورت کا احساس کچھ عرصہ قبل مری، ڈونگاگلی اور لاہور میں تین لڑکیوں کو زندہ جلائے جانے کے واقعات کے بعد ہوا۔ 16جون 2016 کو اس خاکسار نے ’’جھوٹی غیرت اور جعلی عزت‘ ‘ کے عنوان سے اس کالم میں لڑکیوں کو زندہ جلائے جانے کے واقعات کی مذمت کی تھی اور غیرت کے نام پر قتل کو روکنے کے لئے قانون کو سخت بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کالم میں یہ بھی عرض کیا تھا کہ.... ’’ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ حضرت خدیجہ ؓ نے بھی ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے ساتھ پسند کی شادی کی تھی۔ حضرت خدیجہؓ نے اپنی ایک سہیلی نفیسہ کے ذریعے نبی کریمﷺ کی رائے معلوم کی اور پھر دونوں خاندانوں کے بزرگوں نے معاملہ طے کیا۔‘‘ 
مذکورہ کالم میں واضح طور پر لکھا گیا کہ ام المومنین حضرت خدیجہؓ نے نبی کریمﷺ کی رائے معلوم کرنے کے بعد شادی کا معاملہ بزرگوں کے ذریعے طے کیا لیکن کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ اس کالم میں گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والی لڑکیوں کی حمایت کی گئی اور حضرت خدیجہؓ کے واقعے کا ذکر توہین رسالتؐ اورتوہین صحابہؓ کے زمرے میں آتا ہے۔ کچھ محترم علما نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کردیا لیکن میں نے ان علما کو اس بحث میں الجھانے سے گریز کیا اور 4جولائی 2016کو ’’مسلمان عورتوں کے لئے رول ماڈل‘‘ کے عنوان سے کالم میں ان کتابوں کا حوالہ پیش کردیا جن میں حضرت خدیجہؓ اور نبی کریمﷺ کی شادی کے واقعہ کی تفصیلات بیان کی گئیں۔ اس کالم کی اشاعت کے بعد کچھ لوگوں نے میرے خلاف فتوے حاصل کرنے کی کوشش کی جبکہ کچھ طلبہ نے اپنی علمی جستجو کے تحت میرے کالموں کی شرعی حیثیت کے بارے میں علما سے سوالات پوچھے۔ ملک کے مختلف دینی مدارس سے مجھے 16جون اور 4جولائی 2016 کے کالموں کے بارے میں کئی فتوے موصول ہوئے ہیں۔ کچھ بہت تفصیلی ہیں کچھ بالکل مختصر ہیں۔ اس کالم میں صرف چند فتوئوں کا ذکر کروں گا تاکہ عوام الناس کے علم میں بھی اضافہ ہو۔ سب سے تفصیلی فتویٰ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مفتی مختار اللہ حقانی صاحب نے جاری کیاہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اسلام نے ہر عاقل بالغ مرد و زن کو اپنے نکاح کے فیصلے کا حق دیا ہے۔ فتوے میں کہا گیا ہے کہ روایات میں وضاحت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ بعض صحابیات نے آنحضرتﷺ کو خود نکاح کا پیغام دیا۔ فتوے کے مطابق شادی سے قبل ایک دوسرے کو دیکھ لینا جمہور علما کے نزدیک جائز ہے تاہم اس فتوے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ معاشرتی طور پر لڑکی کا خود نکاح کرنے کافیصلہ اس کے خاندان کی بے عزتی کا سبب بنتاہے اس لئے اسلام نے معاشرتی طور پر ولی سے اجازت لینے کی ترغیب دی ہے۔
دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے جاری کردہ اس فتوے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ حامد میر نےاپنے کالم میں آنحضرت ﷺ اور ام المومنین حضرت خدیجہؓ کے نکاح کا جو واقعہ لکھا ہے وہ مستند ہے اور سیرت کی تمام کتابوں میں مذکور ہے۔ اس فتوے میں کہاگیاہے کہ کسی پر توہین کا فتویٰ لگانے یا رائے قائم کرنے سے پہلے توہین و توقیر کا معنی سمجھنا ضروری ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ جس مضمون سے تحقیر و توہین کا معنی لیا جارہا ہے وہ واقعی تحقیر و توہین کا مضمون ہے یا نہیں؟ فتویٰ اور رائےقائم کرنے میں احتیاط سے کام لیناچاہئے بغیر تحقیق کسی کے خلاف فتویٰ دینا یا اس کے خلاف رائے قائم کرنا گناہ ہے۔ فتوے میں کہا گیا ہے کہ اگر حضرت خدیجہؓ کے نکاح کی روایت بیان کرنے سے کوئی توہین و تحقیر صحابہ کرامؓ کا مرتکب ہوا ہوتا تو پھر تمام سیرت نگار اور مورخین اس توہین کے مرتکب ہوچکےہوتے لیکن آج تک کسی نےبھی ان مصنفین کو توہین و تحقیر کا مرتکب قرار نہیں دیا لہٰذا حامدمیر کے کالم میں نہ توہین رسالت ؐہے نہ توہین صحابہؓ ہے۔
جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو لاہور نےبھی 16جون کے کالم پر تفصیلی فتویٰ جاری کیا ہے۔ مفتی محمد عمران کے تحریر کردہ فتوے کی کئی دیگر مدارس کے مفتیان کرام نے تائید و تصدیق کی ہے۔ مفتی محمد عمران صاحب نے لکھاہے کہ حضرت خدیجہؓ نے رسول اللہﷺ سے اپنی رضامندی سے نکاح کیا تھااور کالم میں اس کا ذکر کوئی توہین نہیں ہے۔ حامد میر کے دونوں کالموں کا بغور جائزہ لیا گیا ہے۔ ان میں بے راہ روی کی دعوت نہیںدی گئی بلکہ یہ واضح کیاگیاکہ پسند کی شادی کرنےپر قتل جائز نہیں ہے اور اسلام میں غیرت کے نام پر قتل کی قطعاً اجازت نہیں۔ اس فتوے میں کہا گیا کہ کچھ اسلام مخالف این جی اوز غیرت کے نام پر قتل کی آڑمیں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کر رہی ہیں لہٰذا اس کے تدارک کے لئے حکومت موثر قانون سازی کرے تاکہ دین اسلام کی روشن تعلیمات کو ہدف تنقید نہ بنایا جاسکے۔ جامعہ نعیمیہ اسلام آباد کے مہتمم مفتی گلزار احمد نعیمی صاحب نے بھی 16جون 2016 کے کالم پر اپنے فتوے میں لکھا ہے کہ حامد میر نے حضرت خدیجہؓ کےواقعہ کا ذکر پسند کی شادی پر بطور دلیل کیا۔ انہوں نے گھر سے بھاگنے والی لڑکیوں کی حمایت نہیں کی ان کا استدلال بالکل درست ہے ان کے کالم میں نہ توہین رسالتؐ ہے نہ توہین صحابہؓ ہے۔ انہوں نےبھی اپنے فتوے میں قرآنی آیات اور احادیث کے حوالے دے کر کہا ہے کہ اسلام نے مسلمان عورتوں اورمردوں کو پسند کی شادی کی اجازت دی ہے اور شادی سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھنے کی اجازت بھی دی تاکہ وہ شادی سے پہلے ایک دوسرے کو پسند کرلیں۔
لال مسجد اسلام آباد کے مفتی دوست محمد صاحب، مفتی محمد کامران صاحب اور مفتی احسان الحق صاحب کے مشترکہ فتوے میں 16جون کے کالم کے انداز ِ تحریر اور طرز ِ استدلال کو مناسب قرار نہیں دیا گیا لیکن یہ واضح طور پر کہا گیا کہ اس کالم میں توہین اہل بیتؓ، توہین صحابہؓ یاتوہین رسالتؐ کا کوئی پہلو موجود نہیں کیونکہ موصوف کا مقصود عزت اور غیرت کے نام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی مذمت کرنا تھا۔ اس فتوے کے مطابق نکاح اور شادی کے معاملات میں عورتوں کی بے باکی ہرگز درست نہیں اور اولیا کی سرپرستی ناگزیر ہے البتہ عورتوں پر جبر جائز نہیں بلکہ اولیا کو ان کی رضامندی معلوم کرنے کے بعد نکاح کے معاملات طے کرنے چاہئیں۔ لال مسجد کے فتوے میں کہا گیا ہے کہ تکفیر مسلم ازخود کفر ہے اس لئے جب تک کسی سےضروریات دین، یا اجماع کا انکار اور صریح کفر سرزد نہ ہو اس کو کافرقرار دیناجائز نہیں۔ اسی طرح جامعہ اشرفیہ لاہور کے مفتی شاہد عبید صاحب، مفتی عبیداللہ اوکاڑوی صاحب اور مفتی محمد زکریا صاحب نے بھی اپنے مشترکہ فتوے میں کہا ہے کہ 16جون کے کالم کابغور جائزہ لینے کے باوجودکالم میں ایسی کوئی بات نہیں ملی جسے توہین یا کسی فساد پر محمول کیاجاسکے۔ اس فتوے کے مطابق اولیا کو اپنی بیٹی کے نکاح میں اس کی رضامندی کا خیال رکھناچاہئے اور لڑکی کو بھی اپنے اولیاکی خوشی کو مدنظر رکھنا چاہئے تاہم گھر سے بھاگ کر نکاح کی کوئی ذی شعور حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا۔ کچھ دیگرفتوے بھی ہیں جن کا ذکر پھر کبھی سہی لیکن یہ طے ہے کہ علما کی اکثریت غیرت کے نام پر قتل کے خلاف ہے اور اس ناچیز کے 16جون کے کالم کاعنوان اور مقصد بھی یہی تھا کہ غیرت کے نام پرقتل کو روکا جائے تاکہ اس قتل و غارت کی آڑ میں اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کا سلسلہ بند ہوسکے۔ حکومت کو چاہئے کہ مختلف معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لئے قانون سازی کے ساتھ ساتھ اہم مکاتب ِ فکر کے جید علماکے ساتھ مشاورت کے دائرے کو وسیع کرے اور ان علما کے ذریعے اسلام کی حقیقی تعلیمات کو اجاگر کرنے میں میڈیا بھی اہم کردار ادا کرے۔ آج کے دور میں علمائے حق اللہ کی رحمت ہیں اور ہمیں اس رحمت سے استفادہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔


.
تازہ ترین