• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
راجہ پرویز اشرف آف گوجر خان وزیراعظم تھے تو علاقے کے لوگوں کو پرائم منسٹر ہائوس مدعو کرتے رہتے تھے، ایک ایسی ہی نشست میں دفاع وطن کیلئے گوجر خان کے سپوتوں کی دلیری، شجاعت اور قربانیوں کی بات چلی تو کسی نے کہا کہ یہ پاکستان کی واحد تحصیل ہے جسے دو نشان حیدر حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ کیپٹن راجہ محمدسرور شہید اور سوار محمدحسین شہید۔ وزیراعظم بولے، ایک تیسرا نشان بھی ہے جسے آپ فراموش کررہے ہیں۔ عقدہ کھلا کہ موصوف بھی پاکستان کے سب سے بڑے سول ایوارڈ ’’نشان امتیاز‘‘ سے نوازے جاچکے ہیں۔ یہ انکشاف بھی ہوا کہ اس فہرست میں ڈاکٹر عشرت العباد اور رحمٰن ملک وغیرہ بھی شامل ہیں۔
ایدھی صاحب نے دنیا چھوڑی تو ان کے احسانوں تلے دبی قوم نے انہیں ہرممکن اعزاز سے نوازے جانے کی خواہش کی۔ سرکار کی طرف سے نشان امتیاز کی عطائیگی کا بھی اعلان ہوا اور کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہ کی کہ سماجی خدمت کے شعبے میں نشان امتیاز تو انہیں برسوں پہلے مل چکا ہے۔ عجب معاملہ ہے کہ ایک طرف یار لوگ زندگی بھر تمغوں، عہدوں اور اعزازات کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں اور حصول مقصد کیلئے اوچھی حرکات بھی کر گزرتے ہیں کیونکہ ان کے بل بوتے پر وہ اپنا قد اونچا کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ ان کے برعکس ایدھی صاحب جیسے اللہ کے ولی سرنیہوڑے زندگی خلق خدا کی خدمت میں بسر کردیتے ہیں اور دنیا کا بڑے سے بڑا میڈل اور اعزاز ان کے قد کے سامنے چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ ہم جذباتی قوم ہیں اور شاید بدنصیب بھی کیونکہ بڑے لوگوں کا عرصے سے ادھر گزر نہیں ہوپایا۔ قائداعظم کے بعد ایدھی صاحب وہ پہلی شخصیت ہیں جن کی عظمت کو پوری قوم نے یکجا ہوکر سلام عقیدت پیش کیا ہے۔ سوایک سے ایک بڑا اعزاز ان کے چرنوں پر نچھاور کرنے کیلئے بیتاب ہے۔ ان کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ ہوئی۔ انہیں توپوں کی سلامی ملی، محکمہ ڈاک ان کی تصویر والا یادگاری ٹکٹ جاری کرنے جارہا ہے، سرکاری محکمہ مال ان کے نام کا خصوصی سکہ ڈھالنے کی تیاریوں میں ہے۔قذافی اسٹیڈیم اور کسی بڑے ایئرپورٹ کو ان سے منسوب کرنے کی تحریک ہے۔ ان کے یوم وفات (9جولائی) کو ایدھی ڈے کے طور پر منانے کی تجویز ہے۔فلاحی کاموں اور انسانیت کی خدمت کی علامت کے طور پر انہیں شامل نصاب کرنے کا سوچا جارہا ہے۔ غرض ممنونیت سے سرشام قوم اپنے اس محسن کو امر بنانے کیلئے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہے۔ انہیں تو اس بات کا بھی گلہ ہے کہ نوبیل والوں نے موصوف کے ساتھ زیادتی کی اور یہ انعام انہیں بہت پہلے مل جانا چاہئے تھا۔ متعدد حلقے اس ضمن میں سرگرم عمل ہیں اور مختلف فورمز سے اپیلیں بھی ہورہی ہیں کہ دنیا کے اس نمایاں ترین سماجی اور فلاحی آئیکون کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے ازالے میں مزید دیر نہیں ہونی چاہئے۔حتیٰ کہ جناب رضا ربانی بھی معاملے کو آگے بڑھانے اور متعلقہ حلقوں کو جھنجھوڑنے کی غرض سے ایک خصوصی سینیٹ کمیٹی تشکیل دے چکے۔
ایدھی صاحب کو نوبیل ملے نہ ملے، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا، وہ مرد قلندر ایک مشن لیکر دنیا میں آیا تھا اور زندگی اس کی نذر کرکے اپنے پروردگار کی طرف لوٹ گیا۔ اب ذمہ داری قوم کی ہے کہ ان کے کام کو نہ صرف جاری رکھے بلکہ بڑھاوا بھی دے۔ موصوف کے ساتھ اظہار عقیدت کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں اور نہ اس سے بڑھ کر ان کیلئے کوئی ایوارڈ ہے۔
رہا نوبیل تو بلاشبہ ایک معتبر اعزاز ہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ اس کی سلیکشن کمیٹی کو بھی مغالطے لگتے آئے ہیں۔ اور یہ ایسے ایسوں کو بھی مل گیا کہ خلق خدا انگشت بدنداں رہ گئی۔ اور وہ خود بھی پریشان تھے کہ کیا واقعی انہوں نے کوئی بڑا تیر مارا ہے۔ اگلے روز ایک سفارتکار دوست سے اسی موضوع پر بات ہورہی تھی۔ عقدہ کھلا کہ اصل عزت نوبیل پانے میں نہیں، اس سے انکار میں ہے۔ گزشتہ 15 برسوں میں ہزاروں لوگوں کو یہ ایوارڈ مل چکا، ماسوائے چند، سب نام ذہنوں سے اترچکے۔ اگر کوئی نام اکثریت کو یاد ہے تو وہ اس شخص کا ہے جس نے نوبیل قبول کرنے سے معذرت کرلی تھی۔ فرانس کا نامور لکھاری اور فلاسفر جین پال سارتر جس کے بارے میں صدر ڈیگال کا یادگار جملہ زبان زدعام ہے۔ ’’سارتر تو فرانس ہے اور فرانس کو قید نہیں کرسکتے‘‘۔ مئی 1968 میں پیرس میں ہڑتال ہوئی تو موصوف بھی سول نافرمانی میں گرفتار ہوگئے، جس پر صدر نے بنفس نفیس مداخلت کی اور سارتر کی رہائی کا حکم نامہ جاری کرتے ہوئے درج بالا ریمارکس دیئے تھے۔ 22 اکتوبر 1964 کی سہ پہر ایک شناسا صحافی نے لٹریچر میں نوبیل کیلئے ان کے انتخاب کا بتایا تو کسی قسم کے ردعمل کا اظہار کئے بغیر سارتر نے آہستگی سے صرف اتنا کہا تھا کہ میرا اسے قبول کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ اور پھر ایک پریس کانفرنس میں اپنے اس فعل کی صراحت کرتے ہوئے بتایا تھاکہ ’’مجھے نوبیل انعام سے کوئی بیر ہے اور نہ اس کے منتظمین سے، وجہ صرف یہ ہے کہ میں ایک لکھاری ہوں، آزادی تحریر کا علمبردار اور لکھے حرف کی حرمت کا پجاری‘‘ اور اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ لکھنے والے کی سمت اور سوچ کو آلودہ نہیں ہونا چاہئے۔ جب آپ سرکاری/غیرسرکاری اداروں اور تنظیموں سے انعامات و اعزازات وصول کرتے ہیں تو آپ کی سوچ متاثر ضرورہوتی ہے، آپ ایک طرح سے دبائو میں آجاتے ہیں، جس کا اثر آپ کی تحریر پر پڑتا ہے اور نقصان بیچارے قاری کا ہوتا ہے جسے اصل مال نہیں ملتااور جو اس کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔ آج میںاپنے آپ کو جین پال سارتر لکھتا ہوں اور مطمئن ہوں، نوبیل ’’انعام یافتہ کا لاحقہ لگاکر اس اطمینان کا سودا نہیں کرنا چاہتا‘‘۔
قارئین کی دلچسپی کیلئے ایک وضاحت کہ سارتر کے علاوہ ایک صاحب اور بھی ہیں جنہوں نے نوبیل انعام وصول کرنے سے انکار کردیا تھا اور وہ تھے ویت نام کے ایک سابق وزیراعظم جناب لی ڈک تھو، جنہیں 1973 کا نوبیل پیس ایوارڈ امریکہ کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے ساتھ شیئر کرنا تھا، مگر وہ اس کیلئے تیار نہیں تھے، تو کیا خیال ہے، ایدھی صاحب کیلئے نوبیل ضروری ہے؟ آپ کا تو پتہ نہیں،میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ آفر ہو بھی تو معذرت کرلی جائے۔ کم از کم ایک سارتر پاکستان سے بھی تو ہونا چاہئے۔



.
تازہ ترین