• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روزسپریم کورٹ آئینی بینچ کے سامنے عزت مآب خواجہ حارث نے جواب الجواب میں دلائل جاری رکھے، ’’دورائے نہیں کہ فوجی عدالتوں میں منصفانہ ٹرائل ہوتا ہے اور فوجی عدالتوں میں فیئر ٹرائل میسر ہے‘‘۔ بطور باپ میرا ذاتی تجربہ اسکے برعکس ہے۔

پچھلے ڈیڑھ سال سے سانحہ 9مئی پر سویلین کے ملٹری ٹرائل کا کیس سپریم کورٹ میں چل رہا ہے۔ دورائے نہیں، جس کسی نے جو بھی جرم کیا ہے اسکو آئین و قانون کےمطابق قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ آئین اور قانون نے سزا و جزا کی حدود و قیود مقرر کر رکھی ہیں۔ ذاتی تجربہ، فوجی عدالتوں کی سزائیں غیر منصفانہ ہیں۔ بیٹےحسان خان کی 10سال قید بامشقت سے تکلیف نہ پریشانی، سب کچھ من جانب اللہ، البتہ ریاست کا آئین و قانون کے مطابق ہوتا تو منظور ہوتا اب ایسا نہیں ہوا۔ 26ویں آئینی ترمیم جو توقعات باندھ کر منظور کروائی گئی، اسکے بعد عدالتیں، مقتدرہ کی مرضی کے خلاف فیصلہ کیسے کر سکیں گی۔ سانحہ 9مئی پر ہزاروں FIR ایک طرز پر درج، ہزاروں ملزمان میں سے فقط 105ملزمان کا انتخاب کس بنیاد پر ہوا، افسوس! یہ زیر بحث نہیں لایا گیا۔ میری خوش قسمتی، شروع سے آج تک آئینی بینچ کی کارروائی لفظ بہ لفظ سُنی اور حصہ بقدر جثہ بھی ڈالا۔

حسان نیازی سچی کہانی میری زبانی! بطور متاثرہ فریق بیرسٹر حسان نیازی کے 13اگست 2023ءکو اُٹھائے جانے سے لیکر 10سال قید بامشقت کی حرف بہ حرف کہانی، میری کتاب زندگی کا مزاحیہ باب ہے ۔ بیرسٹر حسان اور اسکے دوست حیدر مجید کو ایبٹ آباد سے گرفتار کیا گیا اور 2ماہ تک لاپتہ رکھا۔ گرفتاری کے فوراً بعد لاہور، پشاور، کوئٹہ، کراچی ہائیکورٹس میں حبس بیجا اپیل دائر کی۔ چند دنوں میں لاہور ہائیکورٹ کے اصرار پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے 17اگست 2023 عرفان اطہر کمانڈنگ آفیسر EME برانچ لاہور کیطرف سے SHO تھانہ سرور روڈ کے نام ایک خط دکھایا جو عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ خط میں SHO کو حسان نیازی کو DELIVER کرنے کا کہا گیا۔ خط اپنے طور غیرقانونی بلکہ ملکی قوانین کا DISREGARD ہے۔ شروع ہی جھوٹ سے کی، جب ایبٹ آباد سے پکڑا تو پورے میڈیا پراسی دن نشر ہوا۔ تھانہ سرور روڈ کے SHO سے کس مد میں تحویل مانگی گئی تھی۔

سپریم کورٹ میں جاری و ساری سویلین کے ملٹری ٹرائل کیس دوران عدالت کا کمنٹ کہ ’’سویلین کی فوج کو حوالگی انسدادِ دہشتگردی عدالت کے ذریعے ہوئی‘‘، مجھے بینچ کی ایسی لاعلمی پر ذہنی کوفت پہنچی کہ بیرسٹر حسان اور حیدر مجید اور 105ملزمان میں سے نجانے اور کتنے جن کو کسی عدالت میں پیش کرنے کی زحمت نہیں کی گئی۔ تقریباً 2سال ہونے کو، سپریم کورٹ نے اپنے طور پر ایسے9مئی کے قومی سانحہ کی تحقیق کی نہ تفتیش۔ جبکہ آئینی بینچ کے سامنے ریاستی وکلا نے ملٹری ٹرائل کی افادیت اور اوصاف حمیدہ بارے دلائل کے ڈھیر لگا دیئے۔ عدالت آج تک سویلین کے ملٹری ٹرائل کا آئین کے اندر خاطر خواہ جواز تلاش کرنے سے قاصر ہے۔ مجھے خدشہ کہ نظریہ ضرورت پھر انگڑائی لینے کو، عدالت کو راستہ مل جائیگا۔ اٹارنی جنرل نے آئینی بینچ کو تاثر دیا کہ سزائیں 2/3سال سے زیادہ نہیں ہونگی ۔حالانکہ بعض کیسز میں 10، 10سال کی سزا سنائی گئیں ۔ ملٹری کورٹس کی دلچسپ صورتحال شکایت کنندہ (مدعی)، پراسیکیوٹر، گواہ، جیوری، جج، سبھی ایک ہی تو تھے، انصاف کیونکر ممکن رہے گا؟ آئینی بینچ کم از کم 105 ٹرائلز کا جائزہ لے لیتی تو ملٹری کورٹس پر آرٹیکل 10(a) اور فیئر ٹرائل، DUE- PROCCESS کا کچا چٹھا سامنے آ جاتا۔

زندگی بھر شاید ہی قسم کھائی ہو۔ خدا کو گواہ بنا کر خواجہ حارث کو بتانا ہے کہ میرے بیٹے کا ٹرائل غلط تھا۔ کاش سپریم کورٹ اس کیس پر کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے، ریاستی وکلاء کی گھنٹوں پہروں آئینی قانونی گتھیاں الجھانے یا سلجھانے سے زیادہ ملٹری ٹرائل کیس میں کوئی ایک کیس بطور کیس اسٹڈی ہی کھنگالتی۔ ایک موقع پر سپریم کورٹ نے 105ملزمان کے ٹرائل کی تفصیلات بھی طلب کیں مگر تفصیلات نہ دیکھی گئیں۔ ملٹری کورٹس فیصلہ کا اعجاز ہی کہ میرے بیٹے کو 10سال قید بامشقت، جیل منتقلی کے باوجود الگ تھلگ ہائی سکیورٹی جیل یعنی جیل کے اندر جیل میں رکھا ہوا ہے ۔حسان نیازی عملاً آج بھی اداروں کی تحویل میں ہے۔ میری دسترس ہوم سیکرٹری، IG جیل ،سپریٹنڈنٹ جیل سب تک مگر سب اپنے اپنے دفتروں میں خانہ پُری کیلئے، حساس معاملات میں بے دست و پا، بے بسی کی تصویر ہیں۔ جواب ایک ہی، آپکے بیٹے کے معاملہ میں SOPs بہت سخت ہیں، جیل مینوئل کےمطابق سہولیات میسر نہیں ہیں۔ سرکاری اہلکاروں سے گلہ بنتا نہیں کہ جس ملک میں چیف ایگزیکٹو، وفاقی و صوبائی وزراء کی حدود و قیود متعین ہوں، وہاں 26ویں آئینی ترمیم تو آئی ہی ریاست پاکستان کو ریلیف دینے، نااُمیدی میری دیکھا چاہیے۔ اپنی ذات تک 50سال سے’’زہر ہلاہل‘‘ کو قند کہے بغیر زندہ ہوں، جو تھوڑی باقی وہ بھی کٹ جائیگی۔ مملکت کے دور کے کینگرو کورٹس، نازی عدالتیں دیکھیں، ’’فاحکم بین الناس بالحق‘‘ کے نیچے کئی بار انصاف کا خون ہوتے دیکھ چکا ہوں۔ جس مملکت میں انصاف عنقا ہو جہاں سیاسی عدم استحکام بدرجہ اتم موجزن ہو تو ان قوموں کا تحلیل ہو نا بنتا ہے، تاریخ کا اٹل فیصلہ ہے۔

ریاستی اداروں نے سانحہ 9مئی پر کارروائی کی بجائے اپنا بیانیہ اور موقف گنوا دیا۔ جس کسی نے معافی مانگی ، بے گناہ ، اسکو رفعتیں ملیں ۔ وہاں میرے بیٹے کو سزا دینے میں جھوٹ گھڑا، انصاف کے ترازو میں ڈنڈی ماری۔ آج آئین پاکستان آئینی عدالتوں کے کٹہرے میں ہے، دیکھنا یہ ہے کہ آئینی عدالت ’’جسٹس منیر کا نام روشن کرے گی‘‘ یا آئین کے تحفظ میں نام کمائے گی۔

تازہ ترین