کوئی بھی قوم اس وقت تک حقیقی معنوں میں آزاد اور خودمختار نہیں ہوسکتی جب تک معاشی طور پر خودکفیل نہ ہو۔ اس ہدف کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ کاروبار مملکت چلانے کیلئے اسے قرضوں کا محتاج نہ ہونا پڑے بلکہ بیشتر مالی وسائل شہریوں کے ادا کردہ محصولات سے فراہم ہوسکیں۔ تاہم پاکستان میں زیادہ تر شہری ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سالہا سال سے مملکت کے روزمرہ اخراجات بھی قرض پر قرض لے کر پورے کیے جارہے ہیں ۔ تاہم موجودہ دور حکومت میں بنیادی معاشی اصلاحات کے ذریعے حالات کو بہتر بنانے کی امید افزا کاوشیں کی جارہی ہیں جن کا اعتراف عالمی تجزیاتی ادارے بھی کررہے ہیں ۔اسی کے نتیجے میں ٹیکس وصولی میں27 فی صد کا خطیر اضافہ ہوا ہے جو یقینا ایک نمایاں کامیابی ہے تاہم ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اسی حوالے سے گزشتہ روز وزیر اعظم نے ایف بی آر ہیڈ کوارٹر میں افسران کیلئے نئے پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کے اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صراحت کی ہے کہ ٹیکس مشینری میں اچھی کارکردگی پر انعام اور بری کار کردگی پر سزا کا نظام نافذ کیا جارہا ہے۔وزیر اعظم نے بتایا کہ نیا پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم اہلکاروں کی دیانت داری اور فیلڈ میں کارکردگی کی بنیاد پر انہیں اے، بی، سی، ڈی اور ای کے طور پر گریڈ دینے پر مبنی ہے۔ایف بی آر افسران کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور احتساب اور انعامات کے نظام کو فروغ دینے کی خاطر افسران کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے مکمل طور پر خودکار ڈیجیٹل نظام کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس نظام کے ذریعے افسران اپنی کارکردگی کی بنیاد پر مالی مراعات اور ترقی کے اہل ہوں گے۔ایف بی آر کے دورے میں وزیرِاعظم کو پی آر اے ایل (پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ)، ڈیجیٹل انوائسنگ، اور حال ہی میں شروع کیے گئے پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم پر بریفنگ دی گئی۔ٹیکس افسران سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ہم آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں محنت کر کے اپنے محاصل میں اضافہ کرنا ہوگا۔ وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ ایف بی آر میں ڈیٹا پر مبنی فیصلہ سازی کا نظام متعارف کروایا جا رہا ہے۔ اس میں نادرا، بینکاری اداروں اور دیگر شعبوں سے ادائیگیوں اور اثاثہ جات کی خریداری کے متعلق ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ ایف بی آر کو بین الاقوامی معیارات سے ہم آہنگ کرنے اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کیلئے بورڈ ایک جدید اور خودکار نظام کے نفاذ کی جانب پیش قدمی کررہا ہے ۔ وزیرِ اعظم کے ایف بی آر میں اصلاحات اور ڈیجیٹائزیشن کے وژن کے تحت، مکمل ویلیو چین کو ڈیجیٹل بنایا جا رہا ہے۔ مزید برآں، ڈیجیٹل انوائسنگ سسٹم کے اجراء کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں اور یہ نظام جلد باضابطہ طور پر نافذ کر دیا جائے گا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ رواں مالی سال کے لیے ٹیکس ریٹرن گوشواروں کو مزید آسان بنادیا گیا ہے۔ بلاشبہ جدید ٹیکنالوجی نے ہر شعبہ زندگی کی طرح پبلک ڈیلنگ کے معاملات میں انسانی مداخلت ختم کرکے تمام کارروائی کو خودکار بنانے کی راہ ہموار کردی ہے جس سے نہ صرف رشوت کے لین دین اور سفارش وغیرہ کے ذریعے بدعنوانی کے دروازے بند کرنا ممکن ہوگیا ہے بلکہ عام شہریوں کیلئے بھی ٹیکسوں کی ادائیگی اور دیگر معاملات کو کسی دشواری اور وقت کے ضیاع کے بغیر نمٹانا بہت آسان ہوگیا ہے۔ لہٰذا ایف بی آر ہی نہیں بلکہ تمام سرکاری محکموں کو مکمل طور پر خودکار بنانا اور ان میں کارکردگی کی بنیاد پر ترقی و تنزل کانظام نافذ کیا جانا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے نیز ٹیکس دینے والوں کو بھی ترقی یافتہ ملکوں کی طرح خصوصی مراعات اور سہولتیں دینا ضروری ہے کیونکہ ٹیکس کلچر اسی طرح فروغ پاسکتا ہے جبکہ یہ عدل و انصاف کا بھی لازمی تقاضا ہے اور اس کے بغیر ملک کا پائیدار اور ہموار ترقی کی راہ پر گام زن ہونا ممکن نہیں۔