گورنر اسسٹیٹ بینک پاکستان نے پچھلے ہفتے اسٹاک ایکسچینج کی تقریب میں پاکستانی معیشت کی مثبت کارکردگی پر روشنی ڈالی۔ ان کے مطابق پچھلے مالی سال کی نسبت امسال افراطِ زر میں نمایاں کمی ہوئی جبکہ آئندہ مالی سال میں شرح نمو 2.5سے 3.5 فیصد تک بہتر ہونے کی امید ہے جو زرعی شعبے کی مثبت ترقی کی صورت میں 4.2 فیصد تک ہو سکتی ہے۔ باوجودکہ افراطِ زر میں اضافہ متوقع ہے وہ اسے5 سے7 فیصد تک رکھنے کی کوشش کریں گے۔ اسی طرح بیرون ِملک پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات امسال قابلِ ذکر اضافے سے 38 ارب ڈالر تک جا پہنچیں گی جبکہ جون تک 4.5 ارب ڈالر کا قرض ملنے سے اسٹیٹ بینک کے ذخائر 14 ارب ڈالر ہو جائیں گےتاہم سود کی مد میں صرف دو ارب ڈالر ادا کرنے ہوں گے ۔ ماضی میں پاکستانی قوم کو ہمیشہ اعداد و شمار کے ہیر پھیر سے بہلایا جاتا رہا اور اب بھی گورنر اسٹیٹ بینک جو بلاواسطہ آئی ایم ایف کے تابع ہیں اور پاکستانی قانون کی گرفت سے باہر ، نے ایک دفعہ پھر وہی وطیرہ اپنایا۔ بیرون ِملک پاکستانیوں کی ترسیلات38 ارب ڈالر اور ملکی برآمدات 30 ارب ڈالر کا موازنہ درآمدات سے کرنے میں صرفِ نظر کر گئے۔ ان کے مطابق 5.7 ارب ڈالر ماہانہ یعنی سالانہ 68.4 ارب ڈالر کی درآمدات کے مقابلے میں کل ملا کر 68 ارب ڈالر کی آمدن ہے یوں درآمدات کی مد میں ہمیں400 ملین ڈالر کا خسارہ ہو گا۔ قرض کے 4.5 ارب ڈالر سے دو ارب سود کی مد میں کٹیں گے تو باقی کیا رہ جائے گا؟ یہ اعداد و شمار کے چکر کب تک چلائیں گے؟ امسال پاکستان7 ارب ڈالر قرض لے کر آئی ایم ایف کا پانچواں سب سے بڑا مقروض ملک بن چکا ہے۔ جنوری 2025 میں مشرقِ وسطیٰ کے دو بینکوں سے 6 سے 7 فیصد سود پر ایک ارب ڈالر مزید لیا گیا جبکہ اسٹیٹ بینک کے ذخائر کے بارے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان میں تین ارب ڈالر سعودی عرب سے ادھار 4 فیصد سود پر ، رقم استعمال نہ کرنے کی شرط پر ہیں۔ یہ بھی نہ بتایا کہ چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کو 27 ارب ڈالر کی ادائیگی تین سے پانچ سال تک مؤخر کرنے کی درخواست کی ہوئی ہے ۔ یہ بتانا بھی یاد نہ رہا کہ پاکستان پر سال 2024 تک 690.57 کھرب روپیہ کا قرض ہے جس میں بیرونی قرضہ 131 ارب ڈالر ہے۔ ان حالات میں ہماری حکومت کے شاہانہ اخراجات اور اللّے تللّے بڑھتے جا رہے ہیں۔ حالیہ بیلارس کا دورہ اس کی واضح مثال ہے کہ اتنے بڑے حکومتی وفد کے ساتھ ایک چھوٹی سی معیشت کا دورہ اور پھر وہاں کیسے ڈیڑھ لاکھ پاکستانی لیبر کو کھپایا جائے گا ۔یہ سب اعلانات انتخابی سیاست کے رنگ ڈھنگ ہیں جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ بعینی ملک میں پانی کی قلت کا منطقی نتیجہ شدید آبی بحران ہو گا جسکی طرف خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔ ڈیم بنانےکے بجائے شاہی سڑکوں کےبِلا ضرورت جال بچھائے جا رہے ہیں اور ایم پی اے،ایم این اے مستقبل کے انتخابات کیلئے اپنے ناموں کی تختیاں لگوانے اور مال بنانے میں لگے ہیں۔اُدھر گندم کا بحران سر پر کھڑا ہے، حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے 3.5 ارب ڈالر کی گندم درآمد کرنا پڑے گی کیونکہ کسان کش پالیسیوں کے باعث زراعت کا شعبہ منفی شرح نمو تک جا پہنچا ہے۔ مقامی گندم کی قیمت پیداواری لاگت سے بھی کم 2000 سے 2100 روپے فی من خرید کی جا رہی ہے جبکہ گندم 8500 روپے فی من پر درآمد ہو گی۔ پچھلے سال حکومتِ پنجاب نے گندم کی قیمت خرید 3900 روپے فی من مقرر کی مگر سرکاری اہلکاروں کے ذریعے 2500 سے بڑھنے نہ دی۔ نتیجتاً امسال کاشت کردہ رقبہ 27 لاکھ ایکڑ تک گھٹ گیا یوں کسان اور زراعت کو زبردست دھچکا پہنچا لیکن کمشن خوروں کی تو چاندی ہوگئی۔پچھلے سال گندم درآمد کے پرمٹ ابھی جاری نہیں ہوئے تھےکہ گندم بردار جہاز ہماری بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کو تیار تھے۔ حکومت پنجاب نے اس اہم ترین مسئلے کو محض انتخابی نقطہ ٔنظر سے دیکھتے ہوئے کسانوں کیلئے بے فائدہ انعامی سکیمیں شروع کیں،حالانکہ جب کسان کے پاس اگلی فصل کیلئے پیسے نہ ہوں گے تو وہ انعام کا کیا کرے گا؟ اب صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا مسئلہ اتنی گمبھیر صورتِحال اختیار کر چکا ہے کہ وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی کا اتحاد خطرے میں پڑ گیا ہے،سندھ میں احتجاجی ریلیاں اور 25 اپریل کو ہڑتال ہو رہی ہے۔ جبکہ پنجاب کے کسانوں کا جان بوجھ کر غلط حکومتی پالیسی کے تجت معاشی قتلِ عام کیا جا رہا ہے۔ کھاد، بیج، پانی، بجلی، ایندھن، مزدوری،زرعی مشینری میں غیر معمولی اضافے سے منافع بخش زراعت اب ممکن نہیں رہی۔ ہندوستان میں 50 کلو یوریا پاکستانی857 روپے کی جبکہ پاکستان میں کنٹرول ریٹ 4200 ہے، ڈی اے پی پاکستانی1904 کی جبکہ پاکستان میں اسکا کنٹرول ریٹ 12000 روپے ہے ۔کسان کو ہندوستانی حکومت بجلی،پانی سب رعایتی دیتی ہے جبکہ ہندوستانی سرکار کسان سے گندم پاکستانی 2600 اور چند صوبے پاکستانی 2750 روپے فی من خرید رہی ہے۔انہی مراعات کے باعث آج ہندوستان دنیا کا سب سے زیادہ گندم اگانے والا ملک ہے بعینی انکی چاول کی پیداوار میں بھی ایک سال میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان کی طرح پنجاب کیلئےبھی کسان کش رویہ اور پالیسی واپس لینا ناگزیر ہے وگرنہ بے نظیر انکم سپورٹ میں کسانوں کی رجسٹریشن منطقی انجام ہے۔ پنجاب حکومت نے 10 کروڑ عوام کے صوبے کےکسانوں کے لیےصرف 15 ارب کے معاشی پیکج کا اعلان کیا ہے جس میں آبیانہ اور فکس ٹیکس کی معافی ہے۔ جبکہ 3 کرکٹ اسٹیڈیم کی تزین اور آرائش پر 18 ارب روپیہ خرچ ہوا،جس میں ٹکٹوں کی فروخت وغیرہ سے صرف 3 ارب ملے۔ ہماری ٹیم ایک میچ بھی نہ جیتی حتیٰ کہ دبئی فائنل پر پاکستان کی جانب سے ایک عہدیدار تک مدعو نہ تھا یعنی صرف گھاٹے کا سودا!آج یہی حال ہماری زراعت کا ہے ، گندم کو فری مارکیٹ معیشت کے تحت آزاد چھوڑنے کے باوجود قیمتِ فروخت پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔ کسانوں کے نمائندوں کو دھونس، دھاندلی اور لالچ کے ذریعے خاموش کرایا جا رہا ہے۔ پنجاب کی بیوروکریسی کی باچھیں کھلی ہیں کہ گندم نہ خرید کر ایک کھرب بچا لیا گیا جو ان کے لئے نئی گاڑیوں،بنگلوں کی آرائش و تزین اور دیگر مراعات پر لٹایا جائے گا۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے جسکی معیشت کی بنیاد زراعت کی کمر توڑ کر اسےکمزور کیا جا رہا ہے۔ مشہور مقولہ ہے کہ جس کے گھر میں سال کے دانے ہوں اسے کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی بعینی پاکستان اگر اناج میں خود کفیل ہوگا تو عوام ہر مشکل جھیل لیں گے اور یہی پاکستان دشمنوں کو مقصود نہیں۔ ہماری معیشت کا برا حال ہے لیکن جمہوری حکومتیں سب اچھا بتلا کر قوم کو بہلائے رکھتی ہیں۔ ڈنگ ٹپاؤ جمہوریت نے آج تک قوم کو کچھ نہ دیا اور اس کے نام نہاد نمائندے صرف اپنی ذات اور اپنی نسلوں کو سنوارنے کی خاطر قوم کا مستقبل داؤ پر لگاتے رہے ہیں۔ ہمیں ایسے حکمران اور اربابِ اختیار چاہیں جو پہلے اپنے پیٹ پر پتھر باندھیں، پھر قوم سے قربانی کا تقاضا کریں۔ قوم پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کریں، ان کی زندگیاں سہل بنائیں۔77 سال سے جمہوریت کے اس عفریت کے ہاتھوں اب مزید ذلت سہی نہیں جا سکتی۔ بس بہت ہو چکا!
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات