کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز پروگرام "جرگہ"میں اپنی پوزیشن کا وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور خیبر پختوانخوا حکومت کا سندھ حکومت سے موازنہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوہ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ میرے ایک بیان سے اتنا ہنگامہ کھڑا ہوا میں حیران ہوں کہ میڈیا والے ایسی بات کو کیوں اچھالتے ہیں جس کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ میرے صوبے میں پولیس ، تعلیم ، صحت ، گڈ گور ننس ، کرپشن میں کمی ، میرٹ پر بھرتیوں سمیت دیگر شعبوں میں تبدیلی آرہی ہے ، سو فیصد کوئی ٹھیک نہیں کر سکتا مگر ہم نے نظام کو ایک راستے پر ڈال دیا ہے ۔جب میں حکومت میں آیا تو میں نے اور خان صاحب (عمران خان )نے اعلان کیا کہ ہم 90 دن میں تبدیلی لائیں گے، اس کے لئے وہ کام جن پر پیسہ خرچ نہیں ہوتا اور نئے قوانین نہیں بنانے پڑتے وہ کام ہم نے پہلے دن سے شروع کئے۔سو فیصد تبدیلی آج تک امریکا میں بھی نہیں آئی۔دنیا میں جہاں بھی تبدیلی آئی، نظام بننے سے آئی ، اس کے لئے قوانین بنائے گئے، سیاسی مداخلت ختم کی گئی ۔ تحریک انصاف کے ایم پی اے جاوید نسیم کی جانب سے خود پر لگنے والے کرپشن کے الزام پر پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ اس نے غلط الزام لگائے اور میرے پاس آکر اس کی معافی مانگی ، ہمارے یہاں لوگھ جوشیلے ہیں بغیر سوچے سمجھے بات کر دیتے ہیں۔اگر میرے صوبے میں کوئی کرپشن کرے تو نہ عمران خان اسے بخشیں گی نہ میں ۔ضیاء اللہ آفریدی جیل گیا ہم نے اس کی وزارت ختم کی اور پارٹی سے نکال کر ایک جانب کر دیا ۔ ضیاء اللہ آفریدی کی جانب سے خود پر لگائے گئے الزامات پر پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ عدالت میں اس کے خلاف الزامات ہیں اگر میرا کچھ ہے تو وہ اسے عدالت میں پیش کر دے ،مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ احتساب کمشنر جنرل حامد کی جانب سے اس بات پر کہ پرویز خٹک کے معاملے میں جو ضیاء اللہ آفریدی کہہ رہے ہیں ٹھیک کہہ رہے ہیں، اس پر وزیر اعلیٰ اعلیٰ کے پی کے کا کہنا تھا کہ اگر کوئی بات ہے تو میں ڈرنے والا نہیں ، میری کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے، میں نے ایک ایک روپے پر ٹیکس دیا ہے ۔میں نے ایسا سسٹم بنا دیا ہے کہ اس میں کوئی آسانی سے کرپشن نہیں کر سکتا ۔اگر کوئی کرپشن کر رہا ہوگا تو چھپتا کچھ نہیں ہے۔ اگر کوئی ریکارڈ آتا ہے تو اس کی تفتیش میں خود کرتا ہوں ۔ بینک آف خیبر کے ایم ڈی کی جانب سے اپنے وزیر خزانہ کے خلاف بدعنوانی کے الزامات لگا کر سرکار کے فنڈ سے عمران خان کی منظوری سے اشتہار شائع کرانے کے حوالے سے پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ عمران خان کی منظوری سے نہیں ہوا ،میں نے کیبنٹ کمیٹی بنائی اور انھوں نے تفتیش کی اور اس کو جاری رکھا ہوا ہے اور یہ آپ کے سامنے آئے گا۔ صوبے کو چلانے کے حوالے سے وزیر اعلیٰ کے کردار پر پرویز خٹک کاکہنا تھا کہ میرے ایک وزیر کی جانب سے مجھ سے تلخ کلامی کی بات نہ ہوئی ہے اور نہ کبھی ہو گی اور نہ کسی کی ایسی ہمت ہے۔عمران خان صرف پالیسی ڈسکس کرتے ہیں کیوں کہ وہ پارٹی کے سربراہ ہیں۔ دھرنے کے خیبرپختونخواہ حکومت پر اثرات کے حوالے سے پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ بالکل دو تین مہینے اس پر اثر ہوا ، سست رہا اور پاکستان کی بیورو کریسی بھی رک جاتی ہے لیکن ہم نے اسے بہتر کیا اور اپنا کام ہم چلا رہے ہیں، کوئی اتنا بڑا مسئلہ مجھے پیش نہیں آیا ۔جیسے ابھی ہم whistleblower قانون لا رہے ہیں وہ یہ ہے کہ جو بھی کرپشن یا اسمگلنگ کرے گا یا کوئی بھی غلط چیز ہو گی ،اس کی اطلاع کوئی کرے گا تو اس کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا اور وصولی کا 25 فیصد اسے ملے گا۔کرپشن کے خلاف یہ بہترین قانون ہے۔ اعظم سواتی ، جہانگیر ترین اور علیم خان کی کمائی جائز ہونے یا نہ ہونے کے سوال پر پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین کے خلاف آج تک کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس نے حکومت میں کوئی کرپشن کی ہے ، اس نے کاروبار چلایا ، دیکھیں اگر آج میں سیاست میں نہ ہوتا تو میں پاکستان کا سب سے بڑا کنٹریکٹر ہوتا ۔ پی ٹی آئی کی اکثر یت کا دھرنوں کی مخالفت کے حوالے سے سوال پر پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ہم دھرنوں کے مخالف نہیں تھے ہمارا موقف یہ تھا کہ اگر چلانا ہے تحریک تو کھل کر نکلو پھر جو ہونا ہے اللہ ہی پھر جانے۔ عمران خان ، جہانگیر ترین ، اسد عمر کی جانب سے صوبے کے معاملات میں مدا خلت کے حوالے سے سوال پر وزیر اعلیٰ کے پی کے کا کہنا تھا کہ انھوں نے کبھی بھی مداخلت نہیں کی ، جب کوئی غلط کا م ہوتا ہے تو مجھے بتاتے ہیں کہ یہ چیز غلط ہوئی۔میں اور جہانگیر ترین ایک ٹیم کی طرح کام کرتے ہیں ۔ انھوں نے مجھے کبھی نہیں کہا کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو ۔ پارٹی کے اندر سے اپنے خلاف آوازا ٹھنے کی بات پر پرویز خٹک نے کہا کہ کوئی بغاوت نہیں ہے، صرف ایک ایم پی اے آزاد جس نے لوکل باڈیز میں ہماری پارٹی کے خلاف کسی اور سے گٹھ جوڑ کیا پھر اسے بلا کر میں نے فارغ کیا ، یہ جمشید نعمان تھے ۔ تراکئی گروپ کاصوابی کے ایم پی اے نے بھی لوکل گورنمنٹ میں دوسری جماعت کے ساتھ اتحاد کیا ، انھوں نے فیصلہ کیا کہ ہمارے ساتھ یہ اب نہیں ہے ، بجٹ سے دو ماہ قبل میں نے اسے کہہ دیا آپ ہمارے ساتھ نہیں ہو ،پھر کوہاٹ کے امجد آفریدی نے بھی الیکشن میں یہی کام کیا ، پارٹی نے فیصلہ کیااور اب ان کو فارغ کیا ہوا ہے ۔