برصغیر کی سیاست میں جب بھی کسی بحران، بدامنی یا غیرمعمولی صورتحال کا ذکر کیا جاتا ہے، تو بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کا کردار کسی نہ کسی شکل میں ضرور نمایاں نظر آتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان کیخلاف انکی منظم مداخلت، نفسیاتی جنگ، پراکسی دہشت گردی اور پروپیگنڈہ مہم ایک کھلا راز بن چکی ہے۔ دنیا کے بیشتر تجزیہ کار اس امر پر متفق ہو چکے ہیں کہ بھارت کی داخلی اور خارجی پالیسیوں میں پاکستان دشمنی محض سفارتی یا سیاسی مخالفت کی حد تک محدود نہیں بلکہ اس میں ریاستی اداروں، خاص طور پر انٹیلی جنس ایجنسی ’’را‘‘ (RAW) کا ایک عملی، فعال اور تخریبی کردار بھی شامل ہے۔ سال 2024ء اور 2025ء کے ابتدائی مہینے اس حقیقت کا واضح ثبوت بن کر سامنے آئے ہیں کہ بھارت نہ صرف پاکستان بلکہ اپنے دیگر ہمسایہ ممالک میں بھی عدم استحکام پیدا کرنے کے ایجنڈے پر کاربند ہے، لیکن پاکستان کے معاملے میں انکا طریقہ واردات کہیں زیادہ جارحانہ، منظم اور خطرناک ہے۔
سال 2024ء میں پاکستان میں دہشت گردی کی کئی وارداتیں ہوئیں جن میں بلوچستان، خیبرپختونخوا اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ،بم دھماکے اور حساس تنصیبات پر حملے شامل تھے۔ ان حملوں میں براہ راست بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ملوث ہونے کے ثبوت نہ صرف پاکستانی اداروں نے پیش کیے بلکہ بین الاقوامی میڈیا اور تحقیقاتی اداروں نے بھی اس پر رپورٹنگ کی۔ سب سے نمایاں واقعہ 2024ء کے وسط میں ہوا جب بلوچستان کے ضلع پنجگور میں ایک خودکش حملہ آور نے چینی انجینئرز کی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ حملہ آور کو تربیت افغانستان میں دی گئی اور مالی معاونت نئی دہلی سے فراہم کی گئی تھی۔اسی سال پاکستان میں ایک اہم انفراسٹرکچر پروجیکٹ پر کام کرنیوالے چینیوں پر حملے کی ذمہ داری ایک نام نہاد قوم پرست تنظیم نے قبول کی، لیکن بعد میں ان تنظیموں کے پیچھے کام کرنیوالے نیٹ ورک کی تہہ تک پہنچنے پر معلوم ہوا کہ فنڈنگ اور ہدایات بھارت کی خفیہ ایجنسی کی طرف سے موصول ہو رہی تھیں۔ بھارت کا مقصد محض دہشت گردی نہیں بلکہ پاکستان کی معیشت کو کمزور کرنا، چینی سرمایہ کاری کو روکنا اور عالمی سطح پر پاکستان کو ایک غیر محفوظ ریاست کے طور پر پیش کرنا ہے۔2023-2024 ء کے آغاز میں بھی بھارتی چالیں تھمتی دکھائی نہیں دیں۔ جنوری میں گلگت بلتستان میں ایک فالس فلیگ آپریشن کی کوشش کی گئی جس کا مقصد وہاں بدامنی کو ہوا دینا اور سی پیک کے اہم روٹس کو نشانہ بنانا تھا۔ یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ سوشل میڈیا پر چلائی جانیوالی متعدد منفی مہمات، جعلی ویڈیوز اور جھوٹی خبریں بھارتی سائبر سیلز سے چلائی جا رہی تھیں۔ انکا مقصد فرقہ واریت، لسانیت اور قوم پرستی کو ہوا دیکر پاکستان کے اندرونی استحکام کو نقصان پہنچانا تھا۔ بھارت کی پالیسی ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ وہ پاکستان کو براہ راست جنگ میں الجھانے کے بجائے اندر سے کمزور کرے۔ اس مقصد کیلئے را نے نہ صرف افغانستان کی سرزمین کو استعمال کیا بلکہ ایران، دبئی اور دیگر ممالک میں بیٹھے مفروروں، علیحدگی پسندوں اور دیگر پاکستان مخالف عناصر کو بھی مالی و تکنیکی مدد فراہم کی۔ بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے بلوچ علیحدگی پسندوں کو ٹریننگ کیمپ فراہم کیے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کے یہی ادارے جو پاکستان کیخلاف مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں، خود اپنے ملک کے اندر جمہوریت، اقلیتوں کے حقوق، انسانی آزادیوں اور ہمسایہ ممالک کیساتھ پرامن تعلقات کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔
2024 ء میں بھارت کے اندر خالصتان تحریک کو کچلنے کیلئے کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ میں سکھ رہنماؤں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں، جن میں قتل جیسے سنگین الزامات بھی شامل ہیں۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کھلے عام بھارتی حکومت پر الزام لگایا کہ اسکے ایجنٹوں نے ان کے ملک میں قتل کی واردات کی۔ اس واقعے نے بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا۔اسی طرح 2025 ء کے آغاز میں بنگلہ دیش میں بھارتی مداخلت کے خلاف مظاہرے دیکھنے میں آئے جہاں عوام نے بھارتی خفیہ ایجنسیوں کےانکی قومی خودمختاری پر حملے کی شکایات کیں۔ بنگلہ دیش میں سول سوسائٹی اور سیاسی رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ بھارت، سابقہ بھارت نواز حکومت اور انکے کارندوں کو بچانے کیلئے خفیہ طریقے سے مداخلت کر رہا ہے۔ سری لنکا میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں پر الزام لگا کہ وہ علیحدگی پسندوں کو دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔اگر ہم ان تمام حقائق کو جوڑیں تو ایک خطرناک تصویر ابھرتی ہے جس میں بھارت کی خفیہ ایجنسیاں نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں بدامنی، سیاسی عدم استحکام اور معاشی خلفشار کا باعث بن رہی ہیں۔ پاکستان کو ان حالات میں مزید چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سفارتی سطح پر بھی بھارتی مداخلت کیخلاف بھرپور آواز اٹھانی چاہئے اور دنیا کو باور کروانا چاہئے کہ اگر جنوبی ایشیا میں امن و امان درکار ہے تو بھارت کی خفیہ کارروائیوں کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔