• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملتان میں، چند روز قبل، انسانی حقوق کے سرگرم کارکن راشد رحمٰن کا قتل ہجوم کے ہاتھوں ’’قانونی فیصلے‘‘ کا تازہ ترین سانحہ ہے۔ اخباری اطلاعات کی مسلسل روایت کے مطابق راشد رحمٰن کو دھمکی دی گئی تھی ۔راشد رحمٰن بہائو الدین زکریا یونیورسٹی کے پروفیسر جنید حفیظ کے وکیل تھے جسے توہین مذہب کے الزام کا سامنا ہے۔ پورے ضلع ملتان میں ایک برس تک کوئی شخص جنید حفیظ کی بوڑھی والدہ کی تمام تر کوششوں اور تلاش بسیار کے باوجود، جنید حفیظ کا مقدمہ لڑنے پر تیار نہ ہوا تھا۔ ملزم کے دفاع کی وکالت سنبھال لی۔ پاکستان میں اقلیتی اور خود بہت سے پاکستانی مسلمان گزشتہ کئی برسوں سے توہین مذہب اور دیگر مقدس عنوانات کے نام پر ہجوم کے نرغے میں اس کے قانونی فیصلوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ شاید بیسیوں دلدوز واقعات کا ریکارڈ پیش کیا جا سکتا ہے۔ مین اسٹریم میں پاکستان پیپلز پارٹی، شاید واحد قومی سیاسی جماعت کہی جا سکتی ہے، بے اختیار و مظلوم پاکستانی ہر معاملے اور ہر مرحلے پر جس کے سائبان تلے خود کو محفوظ رکھنے کی امیدا ور کوشش کر سکتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد انسانی حقوق کی تنظیمیں، حق گو دانشور اور فہم دین کے علمبردار وہ افراد اور گروہ ہیں جو اس بے رحم جنگ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ہمرکاب ہیں۔ اے این پی اور ایم کیو ایم جیسی جماعتیں بھی انسانی جان و مال کی حرمت و حفاظت کے عمل میں مکمل طور سے شامل ہیں۔ اے این پی تو اپنے بیسیوں سیاسی کارکنوں کے جنازے اٹھا چکی۔ اتوار 18؍ مئی کو ایوان اقبال لاہور میں اس غیر عادلانہ کلچر پر ایک بے حد حساس سیمینار منعقد ہوا جسے معروف قلمکار حسن جعفر زیدی نے کنڈکٹ کیا۔ شرکاء میں ڈاکٹر مبشر حسن، عائشہ صدیقہ، حسین نقی، وجاہت مسعود، ضمیر آفاقی اور دیگر مقتدر خواتین و حضرات موجود تھے۔ سیمینار پاکستان میں انسانی ضمیر کی ناقابل شکست جرأت کا آئینہ دار تھا جس میں اس کلچر کی بنیادوں اور جزئیات کو موضوع بنایا گیا۔
دوبارہ بات پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف لاتے ہیں!
جب اس پارٹی ہی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سینیٹ میں ایک قرارداد کے ذریعے فوری طور پر ’’قومی کمیشن برائے انسانی حقوق‘‘ کا قیام عمل میں لانے کا مطالبہ کیا تاکہ ’’گمشدہ افراد، ماورائے عدالت قتل، کراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقوں سے متعدد افراد کے ذریعہ زبردستی اغوا، گرفتار کر کے غائب کئے جانے والوں کی دادرسی ہو سکے۔‘‘ جناب فرحت اللہ بابر کی بیان کردہ تفصیلات کی روشنی میں ’’نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کے قیام کے لئے دو سال قبل مئی 2012ء میں قانون منظور ہوا تھا۔ سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی کے افراد، لبرل اور ترقی پسند سوچ رکھنے والوں نے اس قانون کی منظوری کے لئے طویل جدوجہد کی تھی۔ مزید برآں پریس ڈیکلریشن 1993کے تحت پاکستان انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے قومی کمیشن بنانے کا پابند تھا۔ کمیشن کے فرائض میں از خود یا کسی فرد کی درخواست پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور سرکاری یا غیر سرکاری افراد کی جانب سے انسانی بنیادی حقوق کے حوالے سے تحقیقات میں کوتاہی کی تحقیقات کرنا شامل تھا۔ کمیشن کے چیئرمین اور ارکان کی اسامیوں کو بھی مشتہر کیا گیا تھا۔ امیدواروں کے ناموں کی شارٹ لسٹ کر کے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے فروری 2013 میں کمیشن کے چیئرمین اور ارکان کی تقرری کے لئے سمری وزیراعظم کو بھجوا دی تھی۔ مارچ 2013میں قائم ہونے والی عبوری حکومت کی غفلت اور جون 2013 میں قائم ہونے والی نواز شریف کی حکومت آنے کے بعدیہ منصوبہ سرے سے غائب ہو گیا۔ ستم بالائے ستم موجودہ حکومت نے انسانی حقوق کی علیحدہ وزارت کو ختم کر کے اسے وزارت قانون و انصاف میں ضم کر دیا جس کی وجہ سے اس کمیشن کا قیام سرد خانے کی نذر ہو گیا۔‘‘
اسی تقریر میںسنیٹر فرحت اللہ بابر نے راشد رحمٰن کا مسئلہ اٹھایا اور کہا ’’اس کیس کی تحقیقات میں ان افراد کو شامل تفتیش کیا جائے جن کے بارے میں راشد رحمٰن نے قتل کی دھمکیاں دینے کا الزام لگایا تھا اور متعلقہ جج کو اور انتظامیہ کو آگاہ کر دیا تھا۔ قاتلوں نے ایک شخص کو نہیں بلکہ منطق، دلیل، لبرل سوچ اور خرد افروزی کی علامت کو قتل کیا ہے۔ راشد رحمٰن کو ان لوگوں نے قتل کیا ہے جن کا اس بات پر ایمان ہے کہ صرف وہی اسلامی تعلیمات کی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں اور جو شخص ان کی خود ساختہ تشریح سے انحراف کرے وہ واجب القتل ہے۔ جناب فرحت اللہ بابر نے اپنی بات یہاں ختم کی: ’’راشد رحمٰن ایڈووکیٹ کا دن دہاڑے قتل اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ مذہبی اختلافات کے حوالے سے جرائم میں ملوث مبینہ ملزمان کو پاکستان میں ’’فیئر ٹرائل‘‘ نہیں مل سکتا۔ مذہبی جنونیوں سے اختلاف رائے کرنے والے افراد کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کر دیا جاتا ہے اور ان بدقسمت اور بدنصیب مبینہ ملزمان کو انصاف ملنا تو درکنار ان ملزمان کو صفائی کے لئے وکیل ملنا بھی محال ہو چکا ہے اور بعض اوقات مذہبی شدت پسند افراد متعلقہ عدالت کا گھیرائو کر کے عدالتی ’’پراسیس‘‘ مکمل کئے بغیر مبینہ ملزمان کو سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اپنے جنونی مقاصد کے حصول کے لئے عدالتوں کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ چند سال قبل اسی طرح کی صورتحال کے دوران لاہور ہائیکورٹ کے جج مسٹر عارف اقبال بھٹی کو شہید کر دیا تھا۔ بعض پیشہ ور ’’درخواست گزار‘‘ اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل اور بعض لوگ جو دوسروں کی پراپرٹی پر ناجائز قبضہ کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں اپنے مفادات کے حصول کے لئے پولیس اور میڈیا کے بعض افراد کی مدد سے مذہبی اعتقادات کے حوالے سے جھوٹے مقدمات میں ملوث ملزمان کو سزا دلوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ میڈیا کے بعض غیر ذمہ دارانہ پروگراموں سے شدت پسندوں کو مسلسل تقویت مل رہی ہے اور ان کے ’’شکار‘‘ ستم زدہ افرادکا ’’فیئر ٹرائل‘‘ کا حق بھی عملاً ختم ہوتا جا رہا ہے اور ضلعی سطح پر اور اعلیٰ عدلیہ کی سطح پر بھی مروجہ عدالتی کارروائی جاری رکھنا بھی ناممکن ہو چکا ہے۔کمزور اور بے سہارا لوگوں اور طبقات کو مقدمات کی کارروائی کے دوران اپنی ’’صفائی‘‘ میں کچھ کہنے کے مواقع بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔جنگ گروپ پر عمران خان کی ’’جارحیتیں‘‘ جاری تھیں، جاری ہیں کہ جیو کے ایک پروگرام میں سنگین ترین غلطی ہوئی جس پر ادارے نے تہہ دل سے، بہ صمیم قلب، بار بار معافی مانگی، اپنے اخبار میں اپنی توبہ اور استغفار پیش کی۔
مسلمانان پاکستان گروپ کے اس اظہار اعتراف و ندامت کو خود دیکھ، سن اور پڑھ رہے تھے تاہم ’’ہجوم کے ہاتھوں فیصلے‘‘ کے علمبرداروں نے ’’عدل‘‘ کا فیصلہ صادر کرنا شروع کر دیا تاآنکہ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے اعلامیے سے اب ’’ہجوم کے ہاتھوں عدل‘‘ کے بجائے ’’قانون کی راستی اور معافی کے جذبۂ خیر‘‘ کے دروازے کھلنے کا واضح امکان پیدا ہو چکا ہے، انہوں نے فیصلہ کن انداز میں کہا ’’آزادی کو بندر کے استرے کی طرح استعمال نہ کیا جائے۔ کیبل آپریٹرز کو کوئی چینل بند کرنے کا اختیار نہیں، آزادی صحافت کا مکمل تحفظ کیا جائے گا، کسی کو خود ہی مدعی اور فیصلہ ساز بننے کا اختیار نہیں، جیو کا معاملہ پیمرا میں زیر غور ہے، تبصرہ کروں گا تو مداخلت ہو گی۔ جس شاخ پر ہم بیٹھے ہیں اس کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ متنازع معاملات کو بنیاد بنا کر قوم کو تقسیم نہ ہونے دیا جائے۔‘‘
ہم خطا کار لوگ ہیں، اللہ سے ہی نہیں امت رسول ﷺ سے بھی شرمندہ اور طلب گار عفو و درگزر ہیں۔ رہ گئے جیو کے مخالف ٹی وی چینلز، وہ سب پاکستان کے ایک سینئر ترین اخبار نویس کے، گزشتہ روز ایک مخالف ٹی وی چینلز پر کہے گئے الفاظ یاد رکھیں کہ ’’میڈیا نے پہلی بار اپنی کسی بھی نوعیت کی جنگ میں ’’فتوے‘‘ کو شامل کیا ہے، دیکھ لینا کوئی نہیں بچے گا‘‘
مگر صاحب! دیکھتا کون ہے؟
پس نوشت
پاکستان پیپلز پارٹی میڈیا آفس اسلام آباد کے سینئر رکن ضیاء کھوکھر کے چھوٹے بھائی محمد شفیق کھوکھر کا گزشتہ دنوں انتقال ہو گیا۔ ہمارے ساتھ ضیاء کا برسوں سے گہرا ذاتی اور نظریاتی تعلق ہے، اس کے غم میں برابر کی شرکت! اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے! (آمین!)
تازہ ترین