خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
صاحب صدر محمد خاں رانجھا صاحب سیکرٹری آرکیو اینڈ لائبریریز، پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود صاحب پرووائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی لاہور محترم ڈاکٹر ہارون عثمانی صاحب چیف لائیبریرین پنجاب یونیورسٹی، ڈاکٹر طاہر صاحب، ڈاکٹر شفیق صاحب، ڈاکٹر رفیق صاحب جملہ فکلٹی ممبرز اور میرے پیارے ہونہار طالب علمو! آج ہم سب ورلڈ بک اینڈ کاپی رائٹ ڈے یا عالمی یوم کتاب منا رہے ہیں ان دنوں بڑے زور و شور سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اکیسویں صدی شاید کتب بینی کی آخری صدی ہے۔ آج انٹرنیٹ کی ترقی جس تیزی سے ہوئی ہے اور لوگ اسےجدید ترقی یافتہ ذرائع کو حصول علم کی خاطر جس تیزی سے اپنا رہے ہیں اس نے کتاب بینی کے ذوق کو پیچھے دھکیل دیا ہے، اب لوگ بھاری بھرکم کتابوں میں مغز ماری کی بجائےچنیدہ باتوں کو نکالتے ہیں اور حسب ضرورت ان سے مستفید ہوتے ہیں یہ بات اگر پوری طرح درست نہیں تو کاملاً غلط بھی نہیں۔ ڈاکٹر عثمانی صاحب گواہی دیں گے کہ یہ درویش ایک زمانے میں کتابوں کا کس قدر رسیا تھا اپنی ذمہ داریوں سے جتنا بھی ٹائم بچتا، وہ پورے کا پورا جناح لائبریری میں کتب بینی پرصرف کرتا۔ اپنے دوستوں سے اپنی کتب بینی کا اظہار اکثریوں کرتا ہوں کہ اگر کوئی مجھے دیوان غالب دے کر جیل میں بھی بند کر دے تو مجھے یہ احساس تک نہ ہو پائے گا کہ میں جیل میں ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ کتب بینی نے بہت سی الجھنوں یا ذہنی پریشانیوں سے نکالا۔افسوس کہ آج لائبریریوں کیلئےوہ بے چینی و شدت نہیں رہی ہے اور اس کی بڑی وجہ انٹرنیٹ کی بڑھتی ہے ۔ آج ہوئی ترقی نے ہمیں وہ سہولیات مہیا کردی ہیں جو آئن سٹائن یا سربرٹینڈ رسل کو کچھ لکھنا ہے یا کسی خاص پہلو کی کوئی جانکاری لینی ہے تو گوگل بابا موجود ہے کچھ بھی پوچھو ترنت جواب مل جاتا ہے اسکے باوجود زندگی کی تمنا ہے کہ اپنی 50 کے قریب سوچی سمجھی کتابیں ون بائی ون مکمل کروں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کتاب بینی کا رجحان ختم ہوا جاتا ہے تو پھر یہ زندگی کی سب سے بڑی یہی تمنا کیوں ہے؟ عزیز طالب علمو! ماڈرن ایرا میں انفارمیشن کا جتنا بھی فلڈ آیا ہوا ہے ذرائع ابلاغ کی جتنی بھی ترقی ہو چکی ہے کتاب کی اہمیت پھر بھی مسلمہ ہے اور مسلمہ رہے گی کتاب علم یا نالج کی جڑ ہے یہ علم کا سرچشمہ ہے۔ دنیا میں کتابیں تو اس وقت بھی موجودتھیں جب کاغذ کی صنعت کا آغاز تک نہیں ہوا تھا دنیا میں جتنی بھی الہامی یا ماورائی کتب ہیں آپ ان کی تاریخ معلوم کر لیں تورات کے احکام عشرہ سے شروع ہو جائیں بلکہ اس سے بھی پہلے ابراہیمی صحائف کا جائزہ لیں، چارویدوں گیتا اور رامائن کی سٹڈی کر لیں۔ قرآن کریم کا جائزہ لے لیں نزول قرآن کے وقت عرب میں کاغذ نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ہم سب آگاہ ہیں کہ نبی رحمت ﷺ نے اپنی کتاب کی کتابت کھجورکے پتوں ، چمڑے ، ہڈیوں اور پتھروں پرکروائی تھی۔تاہم جب حالات بدلتے ہیں تو احکام بھی بدل جاتے ہیں، بدقسمتی یہ ہوئی کہ’’ اقراء‘‘اور’’ذالک الکتاب لاریب فیھ‘‘کے ماننے والوںنے بالفعل ایک طرح سے علم دشمنی کو اپنا وتیرہ بنائے رکھا۔ آج ملاحظہ فرما لیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تعلیم کی صورتحال کیا ہے؟ خواندگی کے حوالے سے دیکھیں تو ہندوستان چھوڑ سری لنکا سے بھی ہم لوگ پیچھے ہیں مغربی معاشروں میں میں نے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھا ہے کہ لوگ کتب بینی میں ڈوبے ہوئے ہیں گاڑی میں سفر کرتے ہوئے بیٹھنے کو سیٹ بھی نہیں ملی ہے لیکن بلا تخصیص نوجوان، بزرگ، عورت مرد سبھی اپنا ٹائم ضائع کیے بغیر کتب بینی میں مشغول ہیں،پروفیسر صاحب نے ٹھیک کہا ہے اگر کوئی پڑھتا نہیں سنتا ہے تو یہ بھی کتاب بینی ہی ہے درویش اس سلسلے میں مصر کے عظیم سکالر محقق ڈاکٹر طہ حسین کی مثال پیش کرتا ہے جن کے آج کی ماڈریٹ عرب ورلڈ پر گہرے اثرات ہیں حالانکہ وہ بچپن میں نابینا ہو گئے تھے ان کی کتاب’’فی شعرالجاھلیہ‘‘اور” الفتنتہ الکبریٰ‘‘ قابل ملاحظہ ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی کتابوں کا انتخاب کیا جائے جو جنونیت کی بجائے شعور کو ابھاریں ۔گوتم بدھ نے کہا تھا شعور مرتا نہیں یہ نسل در نسل آگے منتقل ہوتا ہے اور بڑھتا ہے۔ عزیز نوجوانو طالب علمو! درویش نے اپنی تقریر کے آغاز میں اقبال کے جو اشعار پڑھے ہیں ان کے مخاطب آپ ہیں اس قطعہ کا عنوان ہی طالب علم کے نام ہے وہ اپنے طالب علموں میں علم کیلئے اضطراب دیکھنا چاہتے ہیں جو طوفان کی صورت اختیار کر لے، فرماتے ہیں’’ خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں‘‘ دیکھیں آج مجھے تو یہ دکھ ہے کہ ہمارے لوگ کتابوں سے دوستی کیوں نہیں لگاتے، آپ لوگ کتاب بینی کی طرف کیوں نہیں آتے جبکہ اقبال کا دکھ اس سے بھی بڑا ہے کہ تو پڑھاکو بہت ہے مگر یہ کافی نہیں ہے تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں اے میرے رٹو تو صرف کتابیں نہ پڑھ بلکہ اتنا پڑھ کہ تو اس پڑھائی سے بھی آگے نکل جائے تیرے اندر کی شعوری وتخلیقی صلاحییتں اس قدر بڑھ جائیں کہ تو محض کتاب خواں نہ رہے بلکہ صاحب کتاب بن جائے وہ صاحب کتاب کی اہمیت اس قدر مانتا ہے کہ کھل کر کارل مارکس کے متعلق یہ کہہ رہا ہے ’’وہ کلیم بے تجلی، وہ مسیح بے صلیب... نیست پیغمبرو لیکن در بغل داردکتاب‘‘۔
(عالمی یوم کتاب پر پنجاب یونیورسٹی میں کی گئی تقریر)