• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

لاہور بہت رنگ برنگا شہر ہے، مختلف شعبوں کے بڑے لوگوں کا شہر، ان کے علاوہ یہاں بہت دلچسپ لوگ بھی رہتے ہیں، وہ ادیب یا دانشور تو نہیں لیکن ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ ان کا میل جول ہے، ان میں سے ایک نہایت دلچسپ شخص کا میل ملاپ سیف الدین سیف کے ساتھ بھی تھا، وہ اکثر ان کی محفلوں میں بیٹھتا اور جملے بازی کرنے سے باز نہیں رہتا تھا اور اس کی دلچسپ باتوں کا لوگ مزا لیتے تھے اور یوں ادیب نہ ہونے کے باوجود ادیب اور شاعر اس سے دوستوں ہی کی طرح ملتے تھے ، اس کا نام میرے ذہن سے نکل گیا ہے، چلیں اسے عارف کا فرضی نام دے ڈالتے ہیں۔ سیف صاحب کا ایک نیا شعری مجموعہ شائع ہوا تو انہوں نے اپنے دوستوں کو یہ مجموعہ گفٹ کیا، عارف بھی وہاں موجود تھا مگر اسے یہ مجموعہ نہیں دیا گیا۔ عارف کو ذلت کا احساس ہوا تاہم اس نے اس توہین کا بدلہ تین ماہ بعد لیا۔ ایک دن سیف صاحب سے کہنے لگا، آپ کا تازہ شعری مجموعہ بہت عرصے بعد شائع ہوا، اسے سیلیبرٹ کرنا چاہیے تھا، آپ کے دوستوں میں سے تو کسی کو اس کی توفیق نہیں ہوئی، اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے گھر پر کشمیری کھانے کا اہتمام کرتا ہوں، جہاں آپ شرکاء کو اپنا کلام بھی سنائیں گے، سیف صاحب کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ چنانچہ اجازت ملنے پر عارف نے سیف صاحب کے قریبی دوستوں کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا۔ اس دوران اس نے یہ شعری مجموعہ اردو بازار سے خریدا، اس کے سارے ورق علیحدہ علیحدہ کرکے اپنے گھر کے نیچے واقع بلّے پان فروش کی دکان پر گیا اور وہ ورقو ورق مجموعہ بلّے کے سپرد کرتےہوئے کہا کہ کل میرے گھر دعوت ہے، میں دعوت کے آخر میں مہمانوں کو پان بھی پیش کروں گا تم نے یہ پان ان اوراق میں پیک کرکے بھیجنے ہیں۔ سو اگلے روز مہمانوں کو شاندارکشمیری کھانے کھلائے گئے،بعد میں کشمیری چائے بھی سرو کی گئی اور پھر مہمانوں سے پوچھا ’’اب پان چلے گا؟‘‘ اور پھر چائے کے دوران اس نے ایک لڑکے سے کہا نیچے جائو اور بلّے کو کہنا کہ وہ بہترین پان بنا کر تمہیں دے۔ لڑکا وہ پان لے آیا اور حسب ہدایت یہ پان سیف صاحب کے شعری مجموعہ کے اوراق میں لپیٹے گئے تھے۔ سب کو پان پیش کئے گئے سب سے پہلے خود عارف نے یہ پیکنگ کھولی اور پھر سیف صاحب کو مخاطب کرکے باآواز بلند کہا ’’ہیں! یہ کیا؟ آپ کا مجموعہ تین ماہ ہی میں ردی والوں کے پاس چلا گیا‘‘۔ اس دوران سیف صاحب اور ان کے شاعر دوست بھی پان کی گلوری منہ میں ڈالنے والے ہی تھے کہ ان کی نظر سیف صاحب کی کسی غزل میں پیک کئے گئے ورق پر جا پڑی، اس ’’خباثت‘‘ کو سوائے سیف صاحب کے سب نے انجوائے کیا اور آئندہ کئی ماہ تک سیف صاحب نے اپنی محفل میں اسے بیٹھنے کی اجازت نہیں دی۔

سیف صاحب کے ذکر سے یاد آیا کہ ایک جنازے میں ان سے ملاقات ہوئی، میں ان کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا میں نے انہیں کہا کہ سہیل احمد نے اپنے جریدے میں آپ کی تیس چالیس غزلیں اکٹھی شائع کی ہیں اور یہ ایک سے بڑھ کر ایک ہیں جس پر سیف صاحب نے انکسار سے کام لیتے ہوئے کہا ’’آپ کو پسند آئیں تو ٹھیک ہی ہوں گی‘‘ میں نے ان سے کہا کہ یہ بھول چوک بھی عجیب چیز ہےایک دفعہ میری غزل میں ایک شعر:

کوئی وارث ضرور ہوتا ہے

تخت خالی رہا نہیں کرتے

در آیا مگر مجھے لگا کہ یہ شعر میں نے پہلے سنا ہوا ہے، میرا دھیان منیر نیازی کی طرف گیا اور انہیں فون پر یہ شعر سناتے ہوئے پوچھا ’’منیر صاحب یہ شعر کس کا ہے؟‘‘ جس پر منیر نے کہا ’’میرا ہے اور کس کا ہے‘‘۔ میں آج تک حیران ہوں کہ یہ توارد کیسے ہو جاتا ہے؟ سیف صاحب نے جواب دیا اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں، یہ توارد بڑے بڑے شاعروں کے ہاں پایا جاتا ہے، تب میں نے عرض کی کہ آپ کی خوبصورت غزلوں میں ایک شعر ایسا ہے جو دوسرے کلام سے فروتر ہے۔ انہوں نے پوچھا کونسا شعر؟ میں نے وہ شعر سنایا:

جس کو دیکھے ایک زمانہ بیت گیا

اب وہ شخص نجانے کیسا لگتا ہے

بولے ’’یہ شعر اتنا برا نہیں‘‘ تب میں نے حوصلہ پکڑا اور عرض کی ’’سیف صاحب یہ شعرمیرا ہے‘‘۔ اس پر سیف صاحب کو شدید دھچکا لگا اور پوچھا ’’آپ کی یہ غزل کس سن میں شائع ہوئی تھی‘‘ میں نے کہا 1970ء کی دہائی میں ادب لطیف کے سالنامے میں چھپی تھی‘‘ اس پر وہ پریشان ہوئے کیونکہ ان کی اور میری غزل میں بیس سال کا دورانیہ تھا۔ بولے ’’میں جب نیا شعری مجموعہ اشاعت کے لئے دوں گا اس میں سے یہ شعر نکال دوں گا‘‘ مگر یہ شعر ان کے شعری مجموعے میں جوں کا توں شائع ہوا۔ میں یہاں وضاحت کردوں کہ میرے ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات نہیں تھی اور نہ اب ہے، میں نے صرف حیرت کا اظہار کیا تھا ورنہ سیف صاحب ایسے اعلیٰ شاعر کو ایک نوجوان کے درمیانے درجے کے شعر کی کیا ضرورت پڑ گئی تھی،یہ محض توارد تھا۔

اب آخر میں ایک اطلاع جو قارئین کے ایک بڑے حلقے کیلئےحیران کن ہوگی کہ سیف صاحب اور ن م راشد کے علاوہ کئی اور شاعر بھی علامہ مشرقی کی پارٹی کے رکن رہے تھے اور اس کے ارکان خاکسار کہلاتے تھے چنانچہ یہ شعراء بھی خاکی وردی پہنے کاندھوں پر بیلچہ رکھے سڑکوں پر چپ راست چپ راست (دائیں بائیں)کہتے ہوئے پریڈ کیا کرتے تھے۔(جاری ہے)

تازہ ترین