(گزشتہ سے پیوستہ)
گوالمنڈی لاہور کے ایروز سینما کے باہر ایک حاجی صاحب چنے لگاتے تھے ان کے اصل نام کا شاید ہی کسی کو پتہ ہو، بس سب انہیں ’’حاجی حلال دا‘‘ کہتے تھے۔ یہ جو میں نے ’’حلال دا‘‘ لکھا ہے، اصل میں حلال کے برعکس جو لفظ ہے وہ ان کے ’’نام‘‘ کا حصہ بن کر رہ گیاتھا اور اس کی وجہ ان کی ایسی ایسی جگتیں تھیں جسے سننے کیلئےشاعر، ادیب، دانشور اور فلم ساز بہانے بہانے حاجی صاحب کے پاس جایا کرتے تھے، ایک دفعہ شہزاد احمد ان کے پاس گئے اور چنے کی ایک پلیٹ اور دو نان کا ’’آرڈر‘‘ دیا۔ کھانے کے بعد انہوں نے حاجی سے پوچھا ’’کتنے پیسے؟‘‘۔ حاجی حلال دے نے کہا کہ کوئی پیسہ نہیں، شہزاد نے کہا دیکھ حاجی یاری دوستی اپنی جگہ اور دکانداری اپنی جگہ،لہٰذا جلدی سے بتاؤ کتنے پیسے؟ جب شہزاد احمد بضد رہے کہ میں نے بل ضرور ادا کرنا ہے تو حاجی حلال دے نے انہیں مخاطب کیا اور کہا دیکھ شہزاد اب شام ہوگئی ہے، تم نہ آتے تو میں نے یہ سامان کتوں کے آگے ہی ڈالنا تھا۔ اچھا ہوا تم آگئے۔ کسی نے حاجی سے پوچھا تم اتنی دیر سے نان چنے یہاں لگاتے ہو تمہیں کچھ بچتا بھی ہے کہ نہیں، حاجی نے کہا ’’کیوں نہیں، سارے نان چنے بچ جاتے ہیں‘‘۔
ایک بہت بڑے فلم ساز، نام یاد نہیں آ رہا، حاجی کے پاس آئے اور کہا ’’حاجی میں نے سنا ہے تم مجھ سے ناراض ہو؟‘‘ حاجی نے کہا ایسی کوئی بات نہیں، میں معمولی چنے بیچنے والا اور تم اتنے بڑے فلم ساز، میں تمہارے خلاف کیسے ہوسکتا ہوں۔ مگر فلم ساز نے اصرار کیا کہ میرے اور تمہارے مشترکہ دوستوں نے مجھے بتایا ہے کہ حاجی تم سے ناراض ہے، جس پر حاجی نے اسے مخاطب کیا اور بولا ’’ہم برابری کی سطح پر نہیں ہیں، ہاں جو فلم تم بنا رہے ہو، وہ مکمل ہو جائے گی اور فلاپ ہو جائے گی اور تم میرے سامنے چھابہ لگاؤ گے تب تمہارے ساتھ میری لگے گی‘‘۔
حاجی حلال دے کے ایک شاعر دوست کے والد کا انتقا ل ہوگیا، حاجی تعزیت کیلئے اس کی طرف گیا بہت سے لوگ وہاں بیٹھے تھے، حاجی نے آہستہ سے اپنے شاعر دوست کو مخاطب کیا اور کہا ’’اب تمہاری اماں پہاڑ جیسی زندگی کیسے بسر کریں گی‘‘ اس نے جواب دیا بس اللہ کے کام ہیں ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟‘‘ حاجی حرامدا بولا یہ ٹھیک ہے مگر میں تمہارا دوست ہوں اور دوست ہی دوستوں کے کام آتے ہیں، میں ایک صحت مند نوجوان ہوں، باروزگار بھی ہوں، میں حاضر ہوں، اسلام بیواؤں کو دوسرے نکاح کی اجازت دیتا ہے، تم مجھے نظر میں رکھنا‘‘۔ شاعر دوست بلو دی بیلٹ جگت پر سیخ پا ہوا مگر اس کے عملی اظہار سے پہلے حاجی اٹھ کر جا چکا تھا۔
حاجی کسی زمانے میں نگینوں کا کاروبار بھی کرتا تھا، اس نے اس حوالے سے ایک بڑے نگینہ فروش کی شاگردی اختیار کی اور اس موقع پر ایک مٹھائی کا ڈبہ اس کی طرف لے گیا۔ شاگرد ہونے کے باوجود جب حاجی نے اسے بھی اپنے فقروں کی زد میں لئے رکھا تو ایک دن اس نے حاجی کو کہا تم بہت بدتمیز ہو اور میں کسی بدتمیز کو اپنی شاگردی میں نہیں رکھ سکتا۔ میں تمہیں اپنی شاگردی سے عاق کرتا ہوں، اس واقعہ کےاگلے روز حاجی ایک کلو نمک کا ’’ڈھیلا‘‘ سابق استاد کی طرف لے کرگیا، اسے پیش کیا اور کہا شاگرد بناتے وقت آپ نے ایک کلو مٹھائی کھائی تھی، اب عاق کیا ہے تو ایک کلو نمک بھی آپ کو چاٹنا ہوگا۔
اور اب آخر میں کچھ سنجیدہ یادداشتیں۔ عصمت چغتائی تقریباً نصف صدی پیشتر اپنی ایک عزیزہ کے پاس لاہور آئیں تو جمیلہ ہاشمی نے ادیبوں کو ان سے ملانےکیلئے اپنے گھر مدعو کیا۔ میں نے انہیں پہلی بار وہاں دیکھا، سفید گھنگریالے بال، سفید ساڑھی اور سانولا رنگ، عمر 64 برس اور یہ وضاحت انہوں نے کر دی تھی کہ عورت ہونے کے باوجود وہ اپنی عمر صحیح بتا رہی ہیں، یہاں گفتگو بھارت میں اردو کا مستقبل ، کہانی اور علامتی کہانی ، کہانی میں نئے اور پرانے ناموں سے ہوتی ہوتی پاکستان کے بارے میں بھارتی ادیبوں کے رویے تک جا پہنچی۔ کشمیر کا ذکر بھی آیا۔ اردو کے بارے میں عصمت چغتائی نے بتایا کہ بھارت کی نئی نسل اردو رسم الخط سے بالکل بے گانہ ہے۔ بھارتی عوام کی ایک بڑی تعداد اردو بولتی ہے اور اردو سمجھتی ہے لیکن رسم الخط سے ناواقفیت کی بنا پر وہ اردو لکھ اور پڑھ نہیںسکتی۔چنانچہ یہ نسل اپنے بزرگوں کے گرانقدر ادبی ورثہ سے یکسر بے خبر ہے حتیٰ کہ ان کی اپنی بیٹی اردو رسم الخط سے بے گانہ ہے ۔ ایک روز عصمت نے جب اس سے کہا کہ بیٹی کیا تم اپنی اماں کے تخلیقی کام سے تمام عمر ناواقف ہی رہوگی؟تو اس نے جواب دیا میں اس کے بغیر بھی سروائیو کرسکتی ہوں، اس موقع پر جب میں نے عصمت چغتائی سے پوچھا کہ وہ اس صورت حال سے مطمئن ہیں؟۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ اس صورتحال سے کیسے مطمئن ہوسکتی ہیں۔ تاہم انہو ں نے بتایا کہ بھارت میں بسنے والے اردو ادیب اس کے مداوا سے غافل نہیں ہیں چنانچہ ان کے مطالبے پر ایک طرف تو اردو رسم الخط کے فروغ کیلئےحکومت نے کمیٹیاں وغیرہ بنانا شروع کر دی ہیں اور دوسری طرف اردو کی کتابوں کو دیوناگری رسم الخط میں بھی ڈھالا جا رہا ہے۔ اس پر اعجاز بٹالوی نے پوچھا کہ دیوان غالب دیونا گری میں کیسے ڈھالا جائے گا؟ تو عصمت چغتائی نے جواب دیا کہ دیوان غالب دیونا گری میں ڈھالا جا چکا ہے اور اس کی لاکھوں کاپیاں فروخت ہوئی ہیں، غالب اور ان کا کلام وہاں بہت مقبول ہے۔ اس پر اعجاز بٹالوی ہنسے اور کہنے لگےدیو ناگری رسم الخط میں تو وہ غالب کی غزلیں نہیں ’’گالب‘‘ کی ’’گجلیں‘‘ ہی پڑھتے ہوں گے۔ اردو سے بات چلی تو اردو کہانیاں لکھنے والوں تک پہنچی۔ عصمت چغتائی نے انور سجاد کے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ بھارت میں ان دنوں علامتی کہانیوں کا زور ہے اس موقع پر انہوں نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ یہ علامتی کہانیاں ان کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ انہوں نے ان کہانیوں پر دو تین اعتراضات اور کئے، اس پر انتظار حسین سے نہ رہا گیا اور انہوں نے کہا علامتی کہانیوں پر آپ کے اعتراضات اسی نوعیت کے ہیں جس نوعیت کے اعتراضات کسی زمانے میں ایم اسلم نے آپ کی کہانیوں پر کئے تھے۔ (باقی کل)