سانحہ پہلگام کے ہنگام دوست،مہربان، ہمدرد اور خیر خواہ بتا رہے ہیںکہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی اور اس دلیل سے اختلاف کی جسارت کون کرسکتا ہے۔مسولینی نے کہا تھا، جنگ مرد کیلئے اتنی ہی تکلیف دہ ہے جتنا عورت کیلئے عمل زچگی۔ معروف دانشور برٹرینڈ رسل کی یہ بات یاد آتی ہے کہ جنگیں یہ فیصلہ نہیں کرتیں کہ کون صحیح تھااور کون غلط،بلکہ دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ زندہ کون رہ جاتا ہے۔البرٹ آئن اسٹائن نے مستقبل کے خطرات سے پیشگی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا،مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ جنگ عظیم سوئم کن ہتھیاروں کے ساتھ لڑی جائے گی مگر ایک بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جنگ عظیم چہارم لاٹھیوں اور پتھروں سے لڑی جائے گی۔جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہا کہ کشمیر کا تنازع ہزاروں سال پرانا ہے، پاکستان اور بھارت گزشتہ 1500سال سے کشمیر پر لڑ رہے ہیں تو مجھے امریکی مزاح نگار ،امبروز بیرس کی بات یاد آئی ۔اس نے کہا تھا ،جنگ،امریکیوں کو جغرافیہ سمجھانےکیلئے خدا کی طرف سے اختیار کیا گیا ایک طریقہ ہے۔ایک اور امریکی مزاح نگار اور اداکار، وِل راجرزنے کہاتھا،ہر جنگ میں قتل کرنے کا انداز بدل جانے کے بعدآپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ تہذیبی ارتقاکا عمل آگے نہیں بڑھ رہا ۔
ونسٹن چرچل نے کہا تھا،جنگ وہ کھیل ہے جسے مسکراتے ہوئے کھیلا جاتا ہے ۔اگر آپ مسکرانا نہیں جانتے تو دانت چبائیں اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو پھر اس وقت تک جنگ سے گریز کریں جب تک دانت چبانا سیکھ نہ جائیں۔نپولین بونا پارٹ نے تو گویا دریا کو کوزے میں سمیٹ دیا کہ فوجیں اپنے معدے کے بل آگے بڑھتی ہیں۔جرمن نژاد خاتون امریکی فلاسفر،ہنہ ارندت نے اس حقیقت کو مزید بہتر انداز میںبیان کرتے ہوئے کہا،جنگ کا شمار تعیشات میں ہوتا ہے اس لئے محض چند اقوام ہی اس کی متحمل ہو سکتی ہیں۔یعنی غریب اور مفلس اقوام جنگ کا روگ نہیں پال سکتیں۔فرانسیسی فلاسفر ،ژاں پال سارترنے اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا،جنگ مسلط تو اُمرا کرتے ہیں مگر اس میں مرتے غربا ہیں۔یونانی مورخ اور فلاسفرہیرو دوتس نے جنگ کی تلخ حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا تھا، زمانہ امن میں بیٹے اپنے باپ کو دفناتے ہیں مگر دوران جنگ باپ اپنے بیٹوں کے جنازے اٹھاتے ہیں۔سابق امریکی صدر،رابرٹ ہوور نے یہی بات ایک اور انداز میں کہی کہ جنگ کا فیصلہ تو بوڑھے کرتے ہیں مگر اس میں لڑنے مرنے کی ذمہ داری نوجوانوں کی ہوتی ہے۔سابق امریکی صدر ،جان ایف کینیڈی نے جنگ کی تباہ کاریوں کے پیش نظر تجویز دی تھی کہ اس سے پہلے کہ جنگ نوع انسانی کو ہڑپ کرلے ،انسان جنگ کو مار ڈالیں ۔امریکی مزاح نگار اور اداکار، وِل راجرزکا ایک اور خوبصورت جملہ یاد آرہا ہے کہ میرے پاس جنگیں روکنے کا طریقہ ہے اور وہ یہ کہ جب تک کوئی قوم گزشتہ جنگ کا خمیازہ نہ بھگت لے اسے نئی جنگ لڑنے کی اجازت نہ دی جائے۔ امریکہ نے ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا ،شاید اسی تناظر میں امریکی جرنیل ،عمر این بریڈلے نے کہا کہ ایٹمی جنگ جیتنے کا ایک ہی حل ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کبھی ایٹمی جنگ ہوہی ناں۔
روسی مصنف ،لیو ٹالسٹائی کے بقول جنگ اس قدر مکروہ اور غیر منصفانہ عمل ہے کہ اسے مسلط کرنے والوں کو پہلے اپنے ضمیر کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے۔پاکستان اور بھارت آزادی کے بعد مسلسل میدان جنگ میں زورآزمائی کرتے چلے آرہے ہیں حالانکہ نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ ایک ہی دشمن سے بار بار نہ لڑو ،ورنہ وہ تم سے فنِ سپاہ گری سیکھ لے گا۔مگر ہم نے دشمن تو کیا تاریخ سے بھی بس ایک ہی سبق سیکھا ہے کہ ماضی سے کوئی سبق حاصل نہیں کرنا۔شاید ہمارے ہاں حکمران جرمن فلاسفر، فریڈرک نطشے کے اس قول سے متاثر ہیںکہ دشمن کے خلاف سب سے مہلک ہتھیار ایک اور دشمن ہی ہو سکتا ہے۔مگر Bertolt Brechtکے مطابق کم بخت جنگ بھی پیار کی طرح اپنا راستہ خود ڈھونڈ لیتی ہے۔اب موجودہ حالات کو ہی دیکھ لیجئے ۔ہم برسہا برس سے دہشتگردی کا شکار ہیں ۔اپنے پیاروں کی لاشیں اُٹھاتے چلے آرہے ہیں ۔گاہے حکومت کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دہشتگردی کے ان واقعات میں بھارت ملوث ہے ۔بھارت کے حاضر سروس فوجی افسر کلبھوشن یادیو کی سربراہی میں کام کر رہا جاسوسی کا نیٹ ورک پکڑا گیا۔ماضی میں جہاد کشمیر کیلئے سرگرم کئی اہم شخصیات کو چن چن کر قتل کیا گیا اور ان واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد ملے ۔جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کئےجانے کے واقعہ میں بھارتی خفیہ اداروں کی ملی بھگت سامنے آئی مگر حکومت پاکستان نے جنگ کی دھمکیاں نہیں دیں لیکن پہلگام میں سیاحوں پر فائرنگ کے واقعہ کی ایف آئی آر درج ہونے سے پہلے پاکستان پر الزام تراشی شروع کردی گئی اور پھر یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ کو معطل کرکے کشیدگی کو آخری حدتک پہنچا دیا گیا تو فریق ثانی کے پاس تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق کوئی اور راستہ باقی نہ رہا ۔امن کا درس دینے والے احباب شاید یہ حقیقت فراموش کررہے ہیں کہ جنگ ضعف و ناتوانی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔جب ایک فریق جنگ سے گریز پا ہوتا ہے تو دوسرا اسے دیوار سے لگانے کی کوشش میں آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے ۔اسے جارحیت سے باز رکھنے کا ایک ہی نسخہ ہے کہ اپنے دفاع کو یقینی بنایا جائے اور جنگ مسلط ہونے کی صورت میں بہادروں کی طرح حالات کا مقابلہ کیا جائے۔ہم چند برس پہلے ہی 27فروری 2019ء کو اپنی استعداد اور صلاحیتوں کابھرپور مظاہرہ کرچکے ہیں۔جنگ میں کچھ بھی ممکن ہے مگر اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں ہونا چاہئے کہ جس انداز میں ،جس شدت کے ساتھ ہم پر وار کیا جائے گا ،اسی طور ،کہیں زیادہ طاقت و توانائی کیساتھ جواب دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ساحر لدھیانوی نے کہا تھا،گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی ۔