جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی جانب دوڑ پڑتا ہے اور اس کا وہی حشر ہوتا ہے جو ابھی نندن وردتھمان کا ہوا تھا- مودی! دھیان کرو، کہیں چھوٹی سی غلطی پر بڑا خمیازہ نہ بھگتنا پڑ جائے۔مودی عالمی سطح کا اتنا بڑا دہشتگرد ہے کہ نیتن یاہو سمیت دنیا بڑے بڑے خونخوار بھی اس کے سامنے سر جھکائے کھڑے رہتے ہوں گے۔ اس کی وجہ شہرت مسلمان بچوں کا خون پینا ہے۔ گجرات فسادات کے دوران میری ملاقات لندن میں ایک انڈین مسلمان گلوکار کے ساتھ ایک محفل میں ہوئی جس نے میرے دریافت پر گجرات کے حالات زار بیان کرتے ہوئے کہا کہ’’پاکستانی خوش قسمت ہیں جو اپنے مسلمان ملک میں پرسکون طورپر رہ رہے ہیں اور ان کے بچے محفوظ ہیں جبکہ ہندو انتہاپسند ہمارے بچوں کو اغوا کرکے ذبح کر رہے ہیں۔‘‘مودی کی شرپسندی کی انتہا کا اندازہ پہلگام میں وقوع پذیر ہونے والا اندوہناک واقعہ ہے جس میں اس نے پاکستان کے خلاف انتہائی بھنڈے انداز میں فالس فلیگنگ کا کھیل کھیلا اور منہ کی کھانی پڑی-مودی اس بوکھلاہٹ میں اس امریکہ سے مدد کی بھیک مانگ رہا ہے جو اس کی شرپسندانہ سرگرمیوں پر امریکہ کا ویزہ منسوخ کرکے امریکہ میں داخلہ پر پابندی لگا چکا ہے۔نریندر مودی کا نام تاریخ کے سیاہ اوراق پرایسے چند بدبودار دہشتگردوں، فرقہ پرستوں اور منافقوں میں سرفہرست لکھا ہے جنہوں نے معصوم مسلمانوں کا خون بہانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں خلق خدا پر مظالم ڈھانے کی انتہا کر دی- سیکولرا سٹیٹ کو ہندو ریاست بنانے کے لئے کسی قانون، ضابطے، اخلاقیات اور آئین کو روندتے ہوئے وہ سب اقدام اٹھائے جن سے مسلمانوں اور سکھوں میں یہ احساس اجاگر کرنا ہے کہ ان کا بھارت سے اور بھارت کا ان سے کوئی تعلق نہیں جس کی بنیاد پر مختلف مذاہب اور فکر کے طبقات میں عدم تحفظ کے ساتھ بھارت اور بھارت کے حکمراں نریندر مودی سے نفرت ہوئی جس کے نتیجے میں علیحدگی کے رجحان کو تقویت ملی اور مودی نے ان تحریکوں کے سدباب کی بجائے خود کو سپر پاور ثابت کرنے کے لئے کمزور ہمسایہ ممالک پر غلبہ حاصل کرنے کی کوششیں شروع کردیں، یہاں تک کہ کینیڈا اور امریکہ میں ناپسندیدہ سکھ رہنماؤں کے قتل کی سازشوں میں ملوث پائے گئے۔تاہم مودی کے ہندوانہ رویے کے نتیجے میں انڈیا میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کو ہوا ملی جو اب تباہ کن آندھیوں کی شکل اختیار کر چکی ہے جس کی شدت میں وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔مودی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بچپن میں ہی چائے کے ایک ڈھابے سے کیا جو اس کا باپ چلاتا تھا۔یہیں سیاسی چالبازیاں اور فالس فلیگ اور دہشتگردی کی ابتدائی تربیت حاصل کی اور مسلمانوں سے نفرت کی ذلت کمانے میں کمال فن تک پہنچا اور انڈیا کو ہندوا سٹیٹ بنانے کے لئے چھوٹے چھوٹے حصوں یا آزاد ریاستوں میں تقسیم کرنے کی سند حاصل کی اور 1971 میں آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) سے بطور’’پرچارک‘‘ (کل وقتی کارکن) شمولیت اختیار کی جو کسی انتہا پسند جماعت میں ان کی پہلی باقاعدہ وابستگی تھی لیکن1985میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں شمولیت اختیار کی جہاں انہیں کھل کر کھیلنے کا موقع ملا اور انڈیا کی تباہی کا آغاز ہوا۔ مودی 2002 کے گجرات فسادات کے بعد کافی متنازع شخصیت بنے، انہی مسلم کش فسادات کے دوران سیکڑوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور مودی ریاست میں ہندو اکثریت بالادستی کے نظریہ کی بنیاد پر ہندوؤں کے لئے ہیرو اور مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے لئے خونخوار درندے کے طور پر ابھرے جہاں سے مسلم کش تحریک کا آغاز ہوا۔ ان فسادات میں مودی کی سربراہی میں قائم ریاستی حکومت پر الزام لگا کہ وہ تشدد کو روکنے میں ناکام رہی، بلکہ بعض الزامات کے مطابق دانستہ طور پر چشم پوشی کی گئی۔اسی بنیاد پر 2005میں امریکہ نے نریندر مودی کا ویزہ منسوخ کر دیا اور ان پر امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی، یہ فیصلہ امریکہ نے International Religious Freedom Act کے قانون کے تحت کیا، جو ایسے حکام پر پابندی کی اجازت دیتا ہے جو مذہبی آزادیوں کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہوں۔ یہ پابندی 2014 میں ختم ہو گئی جب مودی بھارت کے وزیر اعظم بنے، اور پھر امریکہ نے انہیں باضابطہ طور پر
خوش آمدید کہا۔مسلم کش نظریہ پر یقین رکھنے والے ہندو اکثریت نے مسلمانوں کی عبادتگاہوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا تھا اور اسی دوران 6 دسمبر 1992کو مسلمانوں کا ورثہ بابری مسجد کو شہید کردیا گیا تھا۔ہندو اکثریت کی مودی کی مسلم کش کارناموں کی پذیرائی کا اظہار کرتے ہوئے مودی کا رتبہ بڑھا دیا اور شدت پسند ہندو اکثریت نے انہیں وزیر اعلیٰ سے وزیر اعظم منتخب کرلیا اور 2014کے بعد 2019میں وزیراعظم بنے اور انڈین اور کشمیری مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے گرد گھیرا تنگ کردیا جبکہ کشمیریوں کے حق خود اختیاری کو پامال کرتے ہوئے کشمیر کی متنازع حیثیت ختم کردی اور مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں غیرکشمیری ہندوؤں کی آبادکاری جاری ہے۔