• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اتوار کو میں اکثر ذرا دیر سے اخباروں کا بنڈل کھولتی ہوں۔ اتوار کو چونکہ سنڈے ایڈیشن میں مضامین ہوتے ہیں۔ اس لئے میرے لئے یہ دو گھنٹے کی مصروفیت ہوتی ہے۔ صبح کے نو بجے تھے۔ کسی نے گھنٹی بجائی۔ نور کے ساتھ ایک لڑکا ہاتھ میں میری کتاب ’’سوچ سے خوف کیوں‘‘لیے ہوئے اندر آیا ۔ میں نے سوچا یہ بھی کتاب پر دستخط کروانے آیا ہے۔ اپنے پاس بلایا۔ اس نے کہا میں آپ کے ساتھ انڈیا۔ پاکستان دوستی کے 300 خواتین و حضرات کے وفد میں دلی، الٰہ باد اور کلکتہ گیا تھا اورکتاب کھول کے صفحہ 220 میرے سامنے رکھ دیا۔ لکھا تھا ’’انڈیا۔ پاکستان کی ہاٹ لائن پر بات ہوئی۔ معاہدہ ہوا کہ سیز فائر ہو امریکہ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا دونوں ملکوں کے سفیر واپس اپنی پوسٹنگ پر جائیں۔ بارڈر کھولیں۔ آنا جانا ہو۔ تجارتی روابط باقاعدہ بحال ہوں‘‘۔

میں نے مذاق میں کہا اب آئے ہو؟ بیٹھو اورتم کن زمانوں کی بات کررہے ہو کہ کیا آج کے اخبار میں یہی لکھا ہے! تم اپنا نام تو بتائو۔ میں یاسر ہوں۔ بی۔ اے میں تھا جب سے آپ کے امن دوست گروپ میں تھا۔ اب تو آپکی کتاب مجھے آپ تک لے آئی ہے۔ مجھے وہ امن کے قافلے یاد ہیں۔ اب میں آسڑیلیا میں نوکری کرتا ہوں۔ میں کرسچین ہوں اور ایسٹر کرنے اسلام آباد اپنے والدین کے پاس آیا تھا۔ آپ کی ساری کتابیں میں پڑھتا ہوں۔ اماں مذاق میں کہتی ہیں کہ تجھے کشور ناہید کی شاعری بہت پسند ہے۔ بھئی تو نوجوان لڑکیوں کو پڑھا کر۔ آپکی اس کتاب کو پڑھتے ہوئے، اس صفحے پر مجھے غصہ بھی آیا۔ آپکو اور انڈیا پاکستان دوستی کے اس دور کو یاد کرتا ہوا آپ سے ملنے آگیا۔ اب آپ کے سوا، وہ سب ڈاکٹر مبشر، آئی اے رحمان،ز ہرہ مظہر علی مجھے یاد آئے۔ وہ سب ایسے حالات پہ مایوس ہوکر، ٹرمپ کی طرح کہہ کرکہ یہ دونوں ملک توسو برس سے لڑ رہے ہیں۔ زمین میں جاسوئے۔

میں نے یاد کرتے ہوئے یاسر کو کہا صرف پاکستانی اور ہندوستانی دوستی کا غیر سرکاری معاہدہ 1984 میں ہوا تھا۔ اس کے کئی سال بعد، جب سارک معاہدے میں ذرا حرارت آئی تو افسانہ نگار اجیت کور کو ڈاکٹر کرن سنگھ (کشمیری رہنما) نے کہا ہمت کرو تم سارک ممالک کے وفود بنائو اور ان سارے ملکوں کے لوگوں کو ساتھ زمین پر بیٹھ کر سکھائو کہ ہم سب زمین پر بیٹھ کر روٹی کھانے والے اور رب کا شکر ادا کرنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں ساری دنیا کی قوموں نے لوٹا، ہماری تہذیب کو اپنے اپنے رنگ میں بسایا اور ہم اتنے سادہ تھے کہ ہم میں خوشامدی، ہر دور میں جاگیریں حاصل کرتے رہے۔ ہم وہی مزدور کے مزدور رہے۔ انگریزوں نے تقسیم بھی اپنی مرضی سے کی اور چلتے بنے۔

اجیت کور نے واقعی اپنی زندگی کے دن رات اس محبت کو بڑھانے اور سارے سارک ملکوں کے سربراہوں کو بھی یاد دلایا کہ ہم غریب ایک دوسرے سے لڑتے کیوں رہتے ہیں۔ امن کے 20 برس کے دوران کبھی کارگل کے نام پر اور کبھی مسلسل انڈیا کو ہندوتوا پاکستان کو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو جہادی مسلمان بناکر، ہاتھ میں ہمارے کلاشنکوف اور انڈیا کے نوجوانوں کو تلک لگائے گاندھی جی کی محنت اور ڈاکٹر امبیڈکر کے انسانی فلسفے کو بھلاکر ’’جے شری رام‘ کہنے اور ہندوستان کی ساری تاریخ کو تہس نہس کرکے، مسلمانوں کے ساتھ شودروں جیسا سلوک کرنا شروع کردیا۔ پاکستان میں تو ویسے شروع ہی سے طاقتوروں کی حکمرانی میں سامنے جاگیرداروں کو لاکر حکومت ہوتی رہی۔ کبھی اس کا نام جمہوریت اور کبھی مارشل لا کہلانےلگا۔

اب نہ ڈاکٹر مبشر اور عاصمہ تھے پاکستان میں اور انڈیا میں خشونت سنگھ جیسے لوگ بھی زمین میں چھپ گئے۔ دونوں ملکوں میں نفرتیں دہشت گردی کا چولا پہن کر، محبتوں کو دشمنی کا زہر میڈیا اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ ایٹم بم کا خوف ہاتھ میں لیے۔ دوستی، تجارت، امن اور ہمسائیگی کی حرمت کو پامال کرکے، ہندواور مسلمان بن گئےلیکن انسان کو بھلا بیٹھے بزرگوں نے سکھایا تھا کہ اگر رکابی میںسالن بچ جائے تو ضائع نہ کرو۔ کسی غریب کے منہ میں ڈال دو۔

چلو چھوڑو، مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا۔ علامہ اقبال نے سو برس پہلے بھی کہا تھا اور ابوالکلام آزاد نے کہا تھا ’’تم دو قوموں کو امن سے رہنا نہیں آئیگا تو تم دونوں اپنی نسلیں خراب کروگے۔ ‘‘

ایک جنگ میں فوجی ترانوں کا مقابلہ، پاکستان نے جیت لیا اور دوسری جنگ میں، انڈین فوجوں نے نیازی کے ہاتھ میں ہتھیار ڈالنے والے کاغذ کو سامنے رکھ کر کہا ’دستخط کرو‘۔ ہم نے دو قومی نظریہ سامنے رکھا بنگالیوں نے اپنی زبان اور اپنی تہذیب، تاریخ پڑھاتے ہوئے مغربی پاکستان کو دشمن ملک کہا۔ اب تک کہہ رہے ہیں۔ ابھی تک اپنے بقایا جات مانگ رہے ہیں۔ وہ دو قومی نظریہ نہیں مانتے، وہ خود کو بنگالی کہہ کر سر اٹھاکر جیتے ہوئے ایک دم مسلمان، خود کو کہتے ہوئے، حسینہ واجد کو نکال دیتے ہیں۔ اور اب انہیں بھی قائداعظم یاد آنے لگے۔ ہم قائداعظم کا دن مناتے اور شادیوں پر پانچ ہزار کے نوٹ، رقص و سرود کی محفل میں لٹاکر، وہ سارے پاکستانی خوش رہتے ہیں، جو ریال، ڈالر، پائونڈ کماکر شادیوں کا جشن مناتے، یا پھر نئی نسل ایجنٹوں کے ہاتھوں ماں باپ کی زمینیں بکواکر، کشتیوں کے ذریعہ غیر ممالک جاکر ڈالر کمانے کے منصوبوں کے ساتھ سمندر میں ڈوب جاتی ہے۔

جب سے چیف صاحب نے نوجوانوں سے خطاب کرنے اور سرحدوں پر فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے اور دو قومی نظریہ پر قائم رکھنے کا سبق دہرایا ہے۔ مجھے علی برادران، مولانا حسرت موہانی، عبداللہ ہارون اور ہماری اپنی فاطمہ جناح کا الیکشن لڑنا۔ ایوب خان نے اندر خانے فتح کا نعرہ بلند کیا۔ یہ سب اچھی اور بری باتیں، ماضی کے اوراق، مجھ جیسی بڑھیا کویاد دلا رہے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا کہ ’لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امانت کا‘ واقعی یہ ہوگا۔

تازہ ترین