• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہالینڈ کے ایک اخبار نے پاکستان کے موجودہ معاشی سیاسی اور مذہبی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے پاکستان میں مقیم اپنے نمائندے کے حوالے سے لکھا ہے کہ غربت اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آئے ہوئے عوام میں خودکشی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ لکھتا ہے’’ملک میں مہنگائی جس شرح سے بڑھ رہی ہے عوام اسکے بوجھ تلے پستے چلے جا رہے ہیں ان کی ہمت اور کمر ٹوٹ چکی ہے وہ دن رات بیل بکریوں کی طرح روزی کمانے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں‘‘ آگے چل کر تجزیہ نگار لکھتا ہے۔’’صرف روٹی کپڑا اور مکانـ... پاکستان کے عام آدمی کو اب اس بات سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں کہ پاک امریکی تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔شریعت نافذ کی جاتی ہے یا نہیں، شیخوپورہ، گجر خان ،نارووال، شکارپور ،صوابی، اور سکھر کے عام آدمی کو سستا آٹا، گھی اور چائے چاہیے۔ اُسے سستی ادویات چاہئیں جو اسکی رہی سہی زندگی کو بچا سکیں ۔بچوں کیلئےتعلیم چاہیے کہ کل کو وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں رہنے کیلئے دو کمروں کی چھت چاہیے جہاں اس کی عزت محفوظ ہو۔ عام آدمی 50ہزار کی نوکری نہیں چاہتا وہ صرف اتنے پیسوں کی نوکری چاہتا ہے جو اسے باعزت روٹی دے سکیں‘‘۔

ملک عزیز میں جس انداز سے مہنگائی نے پنجے گاڑے ہیں اسے محض طلب اور رسد میں عدم توازن یا کمی بیشی کا نتیجہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ اچانک اشیائے ضرورت کا بازار سے غائب ہو جانا اور پھر چند روز بعد نمو دار ہونا تو تین گنا چار گنا نرخوں پر ایسی اشیاء کی قیمت میں یک بیک اضافہ ہو جانے کے منظر کو کس کھاتے میں ڈالا جائے۔ جس کا نہ تو خام مال کا پرابلم ہے اور نہ ہی عوامل پیداوار میں کسی کی اجرت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے کہ لاگت کے بڑھ جانے کا بہانہ بنایا جا سکے اس بنا پر یہ کہنا کہ مہنگائی محض معاشی مسئلہ ہے کہ معاشی عمل سے متعلق ہے اس لیے اس کا حل بھی صرف معاشی ہونا چاہیے درست نہیں، یہ الگ بات ہے کہ وزرا اور’’ایکسپرٹ لوگ‘‘یہی کہتے ہیں ۔یہی کہنے والے بھول جاتے ہیں کہ ایڈم اسمتھ کے زمانے کے اقتصادی اصول آج کی صورتحال پر لاگو نہیں ہو سکتے اجارہ دارانہ نظام میں مہنگائی اجارہ دارانہ طبقے کا بہت بڑا ہتھیار ہوتی ہے اسی لیے مہنگائی کا جن موجودہ اجارہ دارانہ طبقے کے قبضے میں ہے ایسی حالت میں مہنگائی صرف معاشی مسئلہ نہیں بلکہ سیاسی مسئلہ بن جاتی ہے اور سیاسی مسئلے کا حل بھی سیاسی ہی ہوتا ہے یا ہونا چاہیے۔ اب جب یہ معاشی مسئلہ سیاسی مسئلہ بن چکاہے تو اسکے ساتھ سیاسی طریقے سے عہدہ برآ ہونا چاہیے اس معاملے میں کلی طورپر حکومتی مشینری پر انحصار نہیں کیا جا سکتا اس کیلئے عوام کو منظم کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ معاشرے میں بنیادی تبدیلیاں ممکن نہیں اور نہ ہی ہمارے ہاںکے صاحبِ اقتدار اور صاحب اثر افراد کی اکثریت چاہتی ہے۔ انکے نزدیک اصلاحات اور سرکاری اقدام سے معاشرے کی اصلاح ہو سکتی ہے اصلاح اور تبدیلی میں فرق ہے لیکن ہمارے ہاں اصلاح کی طرف خصوصیت سے توجہ دی جاتی ہے ۔ ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی ہے اور اس افراتفری کا احساس ہمہ گیر ہو چکا ہے۔

آجکل اس احساس کا محور مہنگائی ہے ہر طبقہ کا فرد مہنگائی پر اظہار خیال کر رہا ہے، یہ درست ہے کہ نچلا اور درمیانہ طبقہ اس مہنگائی سے تنگ آ چکا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مہنگائی کو ختم بھی کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اگرچہ ہم سمجھتے ہیں کہ مہنگائی کے بیسیوں سبب اپنی جگہ موجود ہیں لیکن بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جب تک ذریعہ پیداوارپر نجی ملکیت کو ختم نہیں کیا جاتا اس وقت تک مہنگائی کو ختم کرنے کیلئے کوئی دیر پا حل دریافت نہیں ہو سکتا۔

مہنگائی کو ختم کرنے کیلئے پیداوار میں اضافے پر بہت زور دیا جاتا ہے لیکن نجی ملکیت کے تحت پیداوار میں منافع اندوزی روکنا ناممکن ہے اور میں یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر پیداوار بھی ’’طلب‘‘سے زیادہ ہو جائے تو تب بھی مہنگائی میں اتنی کمی نہیں آ پائے گی جسکی عام شہری توقع رکھتے ہیں۔ مکمل طور پر نجی ملکیت کو ختم کر دیجئے تو اس سے نہ صرف پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ معاشرے کے سینکڑوں مسائل خود بخود ختم ہو سکتے ہیں اور اس کیلئے ہمیں اپنی سوچوں میں تبدیلی لانا ہوگی یہ صرف سوچ کا فرق ہی ہے جو کسی بھی معاشرے کو بگاڑنے یا سنوار نے کا فریضہ ادا کر سکتا ہے۔ اور اس فرق کو محسوس کرنا اس کے سیاق و سباق کو احاطہ شعور میں رکھنا بے حد ضروری ہے اب آئیے اس سوچ کے فرق کے حوالے سے میں آپ کو دو تصویریں دکھاؤں۔

ایک غریب آدمی اپنے نو دس سالہ غریب بیٹے کے ساتھ کسی غریب کالونی سے گزر رہا تھا کہ وہاں کسی غریب گھر سے کوئی عورت اپنے کسی پیارے کی موت پر بین کر رہی تھی’’ ہائے تمہیں وہاں لے جا رہے ہیں جہاں روٹی ہے نہ پانی ہے، ہائے تمہیں وہاں لے جا رہے ہیں جہاں نہ دیوا ہے نہ بتی ہے۔‘‘بچہ یہ سب کچھ سن کر باپ سے پوچھنے لگا ’’ابا اسے ہمارے گھر تو نہیں لے جا رہے‘‘؟

اب تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیں۔

ایک ماسٹر نے کلاس کے بچوں کو غربت پر مضمون لکھنےکیلئےکہا۔ ایک بچی نے لکھا ۔’’ہم بہت غریب ہے ہمارے امی ابو بہت غریب ہیں ہمارے دونوں نوکر بہت غریب ہیں۔ ہمارا خانساماں بہت غریب ہے ہمارا شوفر بہت قریب ہے۔ ہمارا مالی بہت غریب ہے۔ ہم سب غریب ہیں‘‘۔

تازہ ترین