’’چند ماہ قبل میری بہن نے ایک واٹس ایپ نمبر کے ذریعے نوکری کیلئے درخواست دی، یہ نمبر اسے ملازمت کے متلاشیوں کے ایک مشترکہ گروپ سے ملا تھا۔ اِس نمبر کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ کراچی کے کسی تجارتی مرکزسے منسلک ہے۔ بہت سے امیدواروں کی طرح، اُس نے بھی اپنا تعارف (سی وی) بھیج دیا جس میں اُس کی ذاتی تفصیلات درج تھیں اور جواب کا انتظار کرنے لگی۔ پہلے پہل تو کوئی جواب نہ آیا، کچھ دن بعد اُسی واٹس ایپ نمبر سے پیغام ملا کہ ملازمت کا موقع موجود ہے اور یہ کہ درخواست پر مزید کارروائی کرنے کیلئے ضروری ہے کہ امیدوار اپنی تصویر ارسال کرے۔ اُس نے اپنی تصویر بھیج دی، تصویر بھیجنے کے بعد، انہوں نے اُسے یقین دلایا کہ پیر تک نوکری کے بارے میں تصدیق کر دی جائے گی۔ تاہم، منگل کو یکدم، اُن کا لہجہ بدل گیا اور انہوں نے غیر محسوس انداز میں نوکری کیلئے ایک شرط پوری کرنے کا ذکر کیا۔ میری بہن چونکہ حجاب لیتی ہے سو اُس نے سوچا کہ شاید یہ شرط اُس کے حجاب سے متعلق ہے، میری بہن نے مودبانہ طریقے سے انہیں بتایا کہ حجاب اوڑھنا اُس کا ذاتی فیصلہ ہے اور وہ نوکری کی خاطر اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کرے گی۔ اُس بندے نے جواب دیا کہ ہم حجاب کی تو اجازت دیتے ہیں لیکن پھر اچانک، حیران کن طور پر، اُس نے ایک بیہودہ اور نامناسب پیغام بھیجا۔ میری بہن نے اُس پیغام کا سختی سے جواب دیا اور بتایا کہ وہ ایک قانون دان ہے اور اسے یہ بیہودہ پیغام بھیج کر انہوں نے فاش غلطی کی ہے۔ اِس جواب کے بعد اُس بندے کا لہجہ براہ راست دھمکی میں بدل گیا۔ اُس نے لکھا:’اب دیکھو میں کیا کرتا ہوں، بعد میں رونے مت آنا۔‘ پھر جو ہوا وہ پریشان کن تھا۔ انہوں نے مصنوعی ذہانت کی ایپلی کیشن (اے آئی) کی مدد سے اُس کی فحش تصویر بنائی اور اُسے واٹس ایپ گروپس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فحش عنوانات کے ساتھ شیئر کردیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اُس کا شناختی کارڈ نمبر، فون نمبر اور ذاتی معلومات، جس میں والد کا نام، تعلیمی ریکارڈ، پتا، سب کچھ اُس کی جعلی فحش تصویر کے نیچے درج کر دیا.....‘‘
یہ تحریر میں نے لِنکڈ اِن پر دیکھی تھی اور پڑھ کر سوچ میں ڈوب گیا تھا کہ ہم کس دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ ایک لمحے کیلئے خیال آیا کہ اِس سے اچھا تو پتھر کا دور تھا لیکن وہ بھی کیا خاک اچھا ہوگا، اگر آج عورت کو محض ایک جنس سمجھا جاتا ہے تو یہ تصور کرنا مشکل نہیں کہ غار میں رہنے والے مرد اُس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہوں گے۔ لیکن بات اب صرف عورت کی نہیں رہی بلکہ کہیں آگے نکل چکی ہے۔ سائنس کی چکرا دینے والی ایجادات جس طرح سے سامنے آ رہی ہیں انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ آئندہ دور کے انسانوں کو کوئی ایسا عالمی ضابطہ اخلاق لاگو کرنا پڑے گا جس کی خلاف ورزی کرنا ممکن نہ ہو، اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو اے آئی کی لامحدود صلاحیت انسانوں کا ناطقہ بند کر دے گی۔ جس طرح اِس بات کا تعین کرنا ممکن نہیں کہ مستقبل میں اے آئی انسانوں کیلئے کِن کِن طریقوں سے سُودمند ثابت ہو سکتی ہے اسی طرح اے آئی کی شیطانی صلاحیتوں پر مشتمل فہرست مرتب کرنا بھی آسان کام نہیں، اے آئی کی مدد سے کسی کی جعلی فحش تصویر بنانا ایسی ہی ایک صلاحیت ہے، اور اِس صلاحیت کے کتنے ممکنہ روپ ہو سکتے ہیں، کوئی نہیں بتا سکتا۔ حال ہی میں ایپل نے چند ایسی ایپلیکیشنز کو اپنی دکان سے ہٹا دیا ہے جو صارفین کو ترغیب دیتی تھیں کہ وہ ایپ کی مدد سے کسی کے بھی کپڑے اتار سکتے ہیں۔ لیکن ایسی بے شمار ایپس اب بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں اور بظاہر یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں۔
اکثر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ بالآخر تو اے آئی انسان کی تخلیق کردہ ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ انسان کے تابع فرمان ہونے کی بجائے انسانوں کو ہی اپنا مُطیع کر لے۔ میرے خیال میں اِس سوال کے دو ممکنہ جوابات ہیں۔ پہلا، جہاں تک اے آئی سے عمومی دفتری کام لینے کا تعلق ہے تو اِس ضمن میں یہ ٹیکنالوجی انسانوں کی تابعدار ہی رہے گی، ہم اسے جو حکم دیں گے یہ محنتی، قابل اور پھرتیلے ملازم کی طرح اسے بجا لائے گی، جہاں چاہیں گے اُسے روک دیں گے، جب چاہیں گے متحرک کر دیں گے۔ دوسرا جواب انسانی نفسیات سے جُڑا ہے، انسان میں چونکہ حِرص اور لالچ کے جذبات رکھ دیے گئے ہیں سو یہ جذبات تھامس مور کے تخلیق کردہ مثالی شہر یوٹوپیا میں بھی زندہ رہیں گے، انسان جب اِن جذبات کے تابع مصنوعی ذہانت کی مدد سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تو لامحالہ اِس کا بے حد خوفناک نتیجہ نکلے گا۔ جس ٹیکنالوجی کی مدد سے اُس خاتون کی تصاویر بنائی گئیں وہ ٹیکنالوجی کسی ایک شخص کے ہاتھ میں نہیں ہے، اُس کا نشانہ کوئی بھی بن سکتا ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ زر، زن اور زمین کی وجہ سے جرائم روزِ اوّل سے ہو رہے ہیں اور ابد تک ہوتے رہیں گے مگر اے آئی نہ صرف اِن جرائم کی ہیئت تبدیل کر دے گی بلکہ اِن کے نتیجے میں ایک نہ ختم ہونے والی اذیت بھی پیدا کرے گی جس کو بوتل میں بند کرنا پھر کسی کے اختیار میں نہیں ہوگا۔
ایک جرمن فلم کی کہانی یاد آ گئی۔ ایک ایسی کمپنی کا تصور کریں جو انسانوں سے اُن کا وقت خرید کر انہیں پیسے ادا کرتی ہے، اُس کے سیلز مین اپنی لچھے دار گفتگو سے نوجوانوں کو قائل کرتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے دس بیس سال، جو کسی نہ کسی طور معاشی جدوجہد میں ہی صرف ہوں گے، اگر کمپنی کو ایک آدھ ملین ڈالر میں فروخت کردیں تو نہ صرف اُن کی زندگی سنور جائے گی بلکہ اُن کے وہ ماہ و سال کسی اور شخص کی زندگی طویل کرنے کے کام آجائیں گے۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ اگر ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ کام شروع کر دیا جائے تو دنیا کیسی بن جائے گی؟ فی الحال ہم اِس اے آئی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، البتہ اِس کے خطرناک پہلوؤں سے بچاؤ کا چھوٹا موٹا طریقہ ضرور سوچ سکتے ہیں۔ میری رائے میں اسکول کے بچوں کو یہ پڑھایا جانا چاہیے کہ کیسے انہوں نے اپنی نجی معلومات کی حفاظت کرنی ہے اور اِن معلومات کے غیر قانونی استعمال کی صورت میں فوری طور پر کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ ایک کلیہ ہمیں اپنے بچوں کے ذہن میں راسخ کر دینا چاہیے کہ جو بات بھی وہ سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ پر ’چڑھاتے‘ ہیں اسے واپس نہیں لایا جا سکتا۔ لہٰذا سوچ سمجھ شیئر کریں۔ واپسی کی کوئی ضمانت نہیں۔