• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکثر لوگ جب بھارت میں مسلمانوں کی بات کرتے ہیں تو بات صرف کشمیر تک محدود رہ جاتی ہے، جیسے بھارت میں مسلمان صرف کشمیر تک سمٹے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف کشمیر نہیں، پورا بھارت مسلمانوں کا اٹوٹ انگ ہے۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ مسلمانوں نے نہ صرف کشمیر بلکہ پورے برصغیر پر اپنی حکمرانی، تہذیب، ثقافت اور علم و فن کا گہرا نقش چھوڑا ہے، جو آج بھی ہر شہر، ہر گلی، ہر عمارت اور ہر دل میں زندہ ہے۔

کشمیر کی بات کریں تو یہاں اسلام کی روشنی سب سے پہلے صوفی بزرگ حضرت بلبل شاہ کے ذریعے 14ویں صدی میں پہنچی، جنہوں نے رینچن شاہ، کشمیر کے بدھ مت بادشاہ کو اسلام کی دعوت دی اور وہ سلطان صدرالدین کے نام سے پہلا مسلمان حکمران بنا۔ اسکے بعد شاہ میر خاندان نے 1339ء میں کشمیر میں مسلم سلطنت کی بنیاد رکھی۔ سلطان زین العابدین (1420ء – 1470ء)، جسے عوام’’بڈ شاہ‘‘کے نام سے جانتے ہیں، نے کشمیر میں علمی، ادبی، تہذیبی اور تعمیری ترقی کی بنیاد رکھی۔ اس کے دور میں نہ صرف مذہبی رواداری تھی بلکہ کشمیری ہنر، قالین بافی، کڑھائی اور فنِ تعمیر کو فروغ ملا۔

کشمیر کی وادیوں میں آج بھی حضرت شیخ نورالدین ولیؒ، حضرت بلبل شاہؒ، حضرت مخدوم صاحبؒ جیسے صوفیوں کے مزارات موجود ہیں، جہاں ہر مذہب کے ماننے والے عقیدت سے حاضری دیتے ہیں۔ کشمیری قالین، کشمیری شال، لکڑی کا کام، کڑھائی یہ سب اس تہذیب کا حصہ ہیں جو اسلام کے ساتھ کشمیر میں پروان چڑھی۔لیکن کہانی صرف کشمیر تک محدود نہیں۔

جب قطب الدین ایبک نے 1206ء میں دہلی سلطنت کی بنیاد رکھی تو مسلمانوں کی حکمرانی پورے شمالی بھارت میں پھیل گئی۔ دہلی کی گلیوں میں قطب مینار آج بھی مسلمانوں کے عہد کی عظمت کا گواہ ہے۔ اس کے بعد خلجی، تغلق، لودھی، سوری اور مغل حکمران آئے، جنہوں نے نہ صرف حکومت کی بلکہ ہندوستان کی تہذیب کو ایک نئے رنگ میں ڈھالا۔

اکبر اعظم، جس نے 1556ء سے 1605ء تک حکومت کی، نے مذہبی رواداری، فنِ تعمیر، علم و ادب کو فروغ دیا۔ اس کے دور میں فتح پور سیکری (1571ء) تعمیر ہوئی، جو آج بھی مغل فنِ تعمیر کا شاہکار مانی جاتی ہے۔ اس کے دربار میں فیضی، ابوالفضل، تان سین، بیربل اور ٹوڈر مل جیسے نابغہ روزگار لوگ جمع تھے۔شاہجہان، جس نے 1628ء سے 1658ء تک حکومت کی، نے تاج محل (تعمیر کا آغاز 1632ء، تکمیل 1648ء) تعمیر کروایا، جو نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں محبت کی علامت مانا جاتا ہے۔ اگر آج بھارت دنیا بھر سے کروڑوں سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے تو اس میں تاج محل کا سب سے بڑا حصہ ہے۔

دہلی کا لال قلعہ ، جامع مسجد دہلی ، آگرہ قلعہ، لکھنؤ کے امام باڑے، حیدرآباد کا چارمینار ، بیجاپور کا گول گنبد، احمدآباد کی جامع مسجدیہ سب مسلمانوں کے فن، ذوق، شان و شوکت کی نشانیاں ہیں۔بھارت کی زبان، شاعری، موسیقی، کھانوں، لباس، ہر چیز میں مسلمانوں کا حصہ شامل ہے۔ اردو زبان، جو آج بھی کروڑوں بھارتیوں کی زبان ہے، مسلمانوں کا ہی تحفہ ہے۔ غالب، میر، جوش، اقبال، فیض… ان شاعروں کے بغیر برصغیر کی ادبی تاریخ نامکمل ہے۔

بھارت کے مختلف شہروں میں مسلمانوں کی چھوڑی ہوئی یادگاریں آج بھی لوگوں کو حیران کرتی ہیں۔ چاہے وہ گولکنڈہ کا قلعہ ہو، گجرات کا مقبرہ ہو، یا دکن کی سلطنت کے آثار… ہر جگہ مسلمان حکمرانوں کی بصیرت، دانش، اور تعمیری ذوق بولتا نظر آتا ہے۔بھارت کی روحانی تاریخ بھی مسلمانوں کے بغیر نامکمل ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کا مزار (وفات 1236ء) اجمیر میں، حضرت نظام الدین اولیاءؒ کا مزار (وفات 1325ء) دہلی میں، حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ کا مزار (وفات 1422ء) گلبرگہ میں… یہ سب صرف مزارات نہیں بلکہ بین المذاہب محبت اور انسانیت کے مراکز ہیں۔آج اگر کوئی بھارت کے فلمی، تعلیمی، سیاسی، سائنسی میدان پر نظر ڈالے تو بھی مسلمانوں کا نمایاں کردار دکھائی دیتا ہے۔ دلیپ کمار، شاہ رخ خان، عامر خان، نصیرالدین شاہ، عرفان خان… یہ سب بھارتی سینما کی پہچان ہیں۔ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام (1931ء – 2015ء)، جنہیں’’میزائل مین‘‘کہا جاتا ہے، بھارت کے سائنس اور دفاعی میدان کا روشن ستارہ تھے اور بھارت کے صدر (2002ء – 2007ء) بھی رہے۔بھارت کے مسلمانوں نے نہ صرف تاریخ بنائی، بلکہ آج بھی بھارت کی ترقی میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں۔ وہ اسکالرز، اساتذہ، وکلا، ڈاکٹرز، انجینئرز، فنکار، سیاستدان ہر شعبے میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔اس لیے جب کوئی یہ کہتا ہے کہ‘‘صرف کشمیر نہیں، پورا بھارت مسلمانوں کا اٹوٹ انگ ہے’’تو یہ محض ایک نعرہ نہیں، بلکہ تاریخی حقیقت ہے۔ بھارت کے نقشے پر نظر ڈالیں تو ہر اینٹ، ہر دروازہ، ہر محراب، ہر گنبد مسلمانوں کے وجود کی گواہی دیتا ہے۔آج اگر بھارت میں کوئی نظریہ مسلمانوں کو حاشیے پر دھکیلنا چاہتا ہے تو وہ دراصل تاریخی ورثے، تہذیب، ثقافت، اور اس دھرتی کی شناخت سے انکار کر رہا ہے۔ مسلمان بھارت کی مٹی میں رچ بس چکے ہیں، اس کے دریا، پہاڑ، وادیاں، گلیاں، کوچے مسلمانوں کے خون پسینے سے سیراب ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بھارت کی عظمت، بھارت کی تہذیب، بھارت کی شناخت… سب میں مسلمانوں کا حصہ ہے۔ اور یہی سچ ہے کہ صرف کشمیر نہیں، پورا بھارت مسلمانوں کا اٹوٹ انگ ہے۔

تازہ ترین