• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت کے حالیہ عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کی بھاری اکثریت سے فتح پر دنیا بھر میں تبصرے اور تجزیے ہو رہے ہیں لیکن ممتاز بھارتی دانشور اور صحافی کلدیپ نیر ان انتخابات کے نتائج کو ایک ایسے تناظر میں دیکھتے ہیں ، جو پاکستان کی موجودہ صورت حال کو سمجھنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے ۔ اپنے ایک حالیہ مضمون میں انہوں نے انتہا پسندی کے ابھار اور سیکولر قوتوں خصوصاً بائیں بازو کے زوال کے تناظر میں ان انتخابی تنائج کو دیکھا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارتی سیاست میں مذہب کو داخل کر دیا گیا ہے ۔ بی جے پی اور نریندرا مودی نے ہندو کارڈ استعمال کرکے ایک کثیر المذہبی اور کثیر الثقافتی ملک کو تقسیم کردیا ہے ۔ ان کا خیال یہ ہے کہ سیاست کے جسم میں جو زہر کا ٹیکا لگایا گیا ہے ، اس کا اثر ایک دن ختم ہو جائے گا لیکن اس وقت تک بھارتی قوم کو بداعتمادی اور بیگانگی کے ماحول کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ کلدیپ نیر نے صورت حال کو بھارت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے لیکن سب سے زیادہ افسوس اس بات پر کیا ہے کہ بھارت میں سیکولر قوتیں خصوصاً بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں کمزور ہو گئی ہیں ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں کرپشن اور گروہی فسادات میں ملوث ہیں ۔ بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے انتخابات سے قبل دونوں سیاسی جماعتوں کے خلاف ایک محاذ بنانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکیں ۔ کرپٹ اور فسادات کرانے والی قوتوں کو بھارت میں شکست دینا بہت ضروری ہے لیکن یہ بات بھی کم اہم نہیں ہے کہ عقیدہ مساوات انسانی ( Egalitarianism ) کو تقویت پہنچائی جائے ۔ وہ کہتے ہیں کہ بائیں بازو کا زوال پورے بر صغیر کا مسئلہ ہے ۔
تاریخ میں بھارت کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے ، جو مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوئے ۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کی مخالفت کی جڑیں اس ملک میں بہت مضبوط ہیں ۔ مزید تقسیم کے خوف نے سیکولرزم ، کثرتیت ( Pluralism ) اور عقیدہ مساوات انسانی جیسے ارفع نظریات کی حمایت کے لیے ٹھوس جواز فراہم کیا ہے ۔ اس کے باوجود اس سرزمین سے انتہا پسندی کو پنپنے کا موقع ملا ہے ۔ اس کا بنیادی سبب کیا ہے ؟ یہاں امریکی دانشور ول ڈیورانٹ کی اس بات کا حوالہ دینا نا مناسب نہیں ہو گا کہ ’’ ہم جو بات کل اچھی طرح سمجھتے تھے ، آج وہ ہمیں سمجھ نہیں آتی ہے ۔ ‘‘ صرف بھارت ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں جدید سامراجیت کی بنیاد ہر قسم کی انتہا پسندی پر رکھی گئی ہے ۔ کارپوریٹ انڈیا سامراجی اور اجارہ دار کلب میں اپنی جگہ بنا رہا ہے اور اس کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے مذہبی انتہا پسندی اور جدید فسطائی سوچ کی پشت پناہی ضروری ہے ۔ اس کے باوجود بھارت میں کچھ عناصر ایسے بھی ہیں ، جو چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ سوچ بھارت کے لیے تباہ کن ہو گی ۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہم پاکستانی انتہائی سنگین صورت حال سے دوچار ہیں ۔ ہم نے مذہب کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا ہے ۔ مذہبی انتہا پسندی کی مخالفت کا ہمارے پاس کوئی جواز نہیں ہے ۔ اس بات کا بھی دور دور تک کہیں امکان نہیں ہے کہ ہمارا ملک عالمی سامراجی اور اجارہ دار کلب کا رکن بن سکے گا ۔ ہمارے ہاں ہر طرح کی انتہا پسندی موجود ہے اور وہ بیرونی طاقتوں کے مخصوص مفادات اور سامراجی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتی ہے ۔ پاکستان کے روشن خیال اور بائیں بازو کی سوچ کے حامل مٹھی بھر افراد مختلف این جی اوز میں نوکری کرتے ہیں اور انہیں ان ملکوں کی طرف سے فنڈز ملتے ہیں ، جن کے خفیہ ادارے دنیا بھر میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں ۔ یہ لوگ اپنی طاقت کا صرف اتنا مظاہرہ کرتے ہیں ، جتنا ان کے پاس فنڈز ہوتے ہیں ۔ پاکستان کی ’’ اعتدال پسند ‘‘ دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار کے حصول اور دولت جمع کرنے کی مسابقت میں لگی ہوئی ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) دائیں بازو کی سیاسی جماعت ہے اور وہ مذہبی انتہا پسند گروہوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اگرچہ با ئیں بازو کی سیاسی جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن وہ دائیں بازو کی قوتوں کے مد مقابل نہیں رہی ۔ تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو ایسی اعتدال پسند سیاسی جماعتیں کہا جا سکتا ہے ، جو ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو عملاً چیلنج کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ ان دونوں سیاسی جماعتوں نے نظریاتی اور قربانیاں دینے والے کارکنوں کی کوئی حیثیت نہیں رہی ۔ دونوں پارٹیوں کے معاملات چند لوگ چلاتے ہیں ۔ یہ معاملات اقتدار کے لیے جوڑ توڑ اور پیسہ جمع کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتے ۔ دوسری طرف نسلی ، لسانی ، فرقہ وارانہ اور مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد پر سیاست کرنے والی قوتیںہیں ، جن کی طرف مالیاتی وسائل کا حیران کن بہاؤ جاری ہے ۔ آج کی نسل کو وہ بات سمجھانے والا کوئی نہیں رہا ، جو ہم سے پہلے کی نسلوں کے لوگ اچھی طرح سمجھتے تھے ۔ ذہنوں کے دریچے بند ہو چکے ہیں ۔ منطق ، دلیل اور معقولیت کا کوئی عمل دخل نہیں رہا ۔ تنگ نظری اندھے پن کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ اس کا اندازہ چند سال پہلے رونما ہونے والے ایک واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے ۔ ایک اردو اخبار نے انتہائی جید اور محترم اسلامی اسکالر حضرت شیخ سید سلیمان ندویؒ کی کتاب سیرت النبیﷺ سے کچھ اقتباسات شائع کردیئے تھے ۔ یہ کتاب دراصل حضرت مولانا شبلی نعمانی ؒ نے شروع کی تھی لیکن اس کی تکمیل سے پہلے ان کا انتقال ہو گیا تھا ۔ بعد ازاں حضرت سلیمان ندوی ؒ نے اسے مکمل کیا ۔ یہ سیرت النبیﷺ پر انتہائی مستند کتاب تصور کی جاتی ہے ۔ اس کے اقتباسات کی اشاعت پر بعض لوگوں نے احتجاج شروع کردیا تھا اور اخبار کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ دائر کرنے کا مطالبہ کیا تھا ۔ لاہور میں اخبار کے کچھ لوگوں کے خلاف مقدمہ درج بھی ہوا تھا ۔ مقدمہ درج ہونے کے بعد لاہور پولیس کے اہلکار لوگوں سے پوچھ رہے تھے کہ سلیمان ندویؒ کہاں رہتے ہیں تاکہ انہیں گرفتار کیا جا سکے ۔ یہ تو شکر ہے کہ حضرت سید سلیمان ندویؒ 1953ء میں ہی اس دنیا سے رحلت فرما چکے تھے ۔ ورنہ وہ نہ صرف گرفتار ہو جاتے بلکہ ہماری تنگ نظری اور انتہا پسندی کے قہر کا بھی شکار ہوتے ۔ اس واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ۔ نریندر مودی کی کامیابی پر پاکستان کی وہ قوتیں خوش ہو رہی ہیں ، جو انتہا پسندی کی سیاست کو پروان چڑھاتی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ اس سے پاکستان میں انتہا پسندانہ جذبات کو بھڑکانے میں مدد ملے گی ۔ بھارت میں انتہا پسندی تو اس کے سامراجی مفادات کو تقویت پہنچا سکتی ہے لیکن بھارت میں یہ سوچ بھی موجود ہے کہ یہ انتہا پسندی بھارت کو برباد کر دے گی ۔ ہم تو صرف اور صرف اپنی تباہی کے لیے اندھے پن کا شکار ہو رہے ہیں ۔ سرائیکی میں ایک کہاوت ہے کہ ’’ اندھی لعنتوں میں خوش ‘‘ ۔
تازہ ترین