’’یادش بخیر‘‘ جنابِ وجاہت مسعود معروف دانشور کالم نگار ہیں۔ انہوں نے کراچی میں وفاقی وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کے تحت منعقدہ کانفرنس میں میرے خطاب کے بعض حصوں کو ہدفِ تنقید بنایا اور فتویٰ صادر کیا کہ آئینی اور سیاسی امور پر میری گرفت کمزور معلوم ہوتی ہے۔ وہ ضرور بڑے عالم ہوں گے ، میں تو ایک طالب علم ہوں، لیکن میں نے ایل ایل بی کر رکھا ہے اور دستور پاکستان کے ساتھ ساتھ دساتیرِ عالم کا تقابلی مطالعہ حسبِ توفیق کرتا رہتا ہوں ۔ تصوف کے فرقہ ٔملامتیہ کی طرح ہمارے دانشوروں اور میڈیا سے وابستہ افراد کی ایک بڑی تعداد احساسِ جرم میں مبتلا ہے اورانہیں ہر عیب صرف پاکستان میں نظر آتا ہے۔اس وقت بھارت میں مذہبی عصبیت ومنافرت پاکستان کے مقابلے میں بدر جہا زائد ہے، بلکہ تیسری مرتبہ منتخب ہونے والے بھارتی وزیر اعظم نریندر سنگھ مودی اپنی انتخابی مہم کی اساس پاکستان اور مسلمانوں سے نفرت پر رکھتے ہیں ، انہی کے دور میں مقبوضہ کشمیر کی مخصوص آئینی حیثیت کو ختم کیا گیا اور اس کے بعض حصوں کو بھارتی یونین میں ضم کر دیا گیا ، حالانکہ مقبوضہ جموں و کشمیر عالمی سطح پر ایک زیر تصفیہ اور متنازعہ علاقہ ہے۔و جاہت مسعود صاحب نے 1941ءمیں مدراس میں منعقدہ ایک اجلاس کی قرارداد کا اقتباس بھی پیش کیا ہے، کالم نگار صاحب ’’کا تا اور لے دوڑی‘‘ کے مصداق میرے موقف کو پوری طرح سنے اور سمجھے بغیر کالم لکھنے بیٹھ گئے ، جبکہ انکے کالم کے مندرجات میں میرے موقف کی تائید بھی شامل ہے۔ میں نے کہا تھا:’’ہمارے ہاں لفظ اقلیت (Minority) سنتے ہی غیر مسلم کا تصور آتا ہے، حالانکہ اقلیت ایک اضافی اصطلاح (Relative (Term ہے، مثلاً :پاکستان میں عددی اعتبار سے ہندو اقلیت میں ہیں اور ہندوستان میں بیس کروڑ سے زائد ہونے کے باوجود مسلمان اقلیت میں ہیں۔لہٰذا اکثریت اور اقلیت کی بحث میں پڑے بغیر شہریوں کے مساوی حقوق پر بات کرنی چاہئے۔ جنرل ضیاء الحق نے براہ راست اپنے نمائندے منتخب کرنے کیلئے اقلیتوں کی جدا گانہ فہرست مرتب کی تھی ،مگر انہوں نے اس پر احتجاج کیا کہ ہمیں دوسرے درجے کا شہری بنادیا گیا ہے، ہم مشترکہ انتخابی نظام میں شامل ہونا چاہتے ہیں، ہم نے کہا:پاکستان کے دستور میں آپ کیلئے تو نشستیں بھی مخصوص کر دی گئی ہیں، حالانکہ دنیا کے دوسرے جمہوری ممالک کے دساتیر میں ایسا نہیں ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ میں بیس کروڑ مسلمانوں کیلئے، برطانوی پارلیمنٹ اور امریکی کانگریس میں تقریباً چار چار ملین مسلمانوں کیلئے کوئی مخصوص نشست نہیں ہے، وہ لوگ سیاسی پارٹی میں شامل ہو کر اُن کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں، جیسے صادق خان لیبر پارٹی کی طرف سے تیسری بارلندن کے میئر منتخب ہوئے ہیں ۔ اُس وقت انہوں نے کہا تھا :ہمیں مخصوص نشستیں نہیں چاہئیں، لیکن مشترکہ انتخابی فہرستوں میں شمولیت کے بعد غیرمسلموں کیلئے پھر مخصوص نشستیں رکھ دی گئیں۔ کیا پاکستان اس روئے زمین پر کسی الگ جزیرے میں رہتا ہے۔ اقلیتوں کیلئے ،خواہ بقول وجاہت مسعود مذہبی اقلیتیں ہوں، لسانی اقلیتیں ہوں یا طبقاتی اقلیتیں ہوں، الگ سے نشستیں کسی بھی جمہوریت میں مختص نہیں ہیں۔ صرف لبنان کے دستور میں ہے کہ صدر مسیحی ہوگا، وزیراعظم سنی ہوگا اور اسپیکر شیعہ ہوگا اور دنیا میں کہیں بھی ایسا نظم نہیں ہے۔ سیکولر لبرل لوگوں نے فرض کر رکھا ہے کہ دنیا کی ہر خرابی صرف پاکستان اور پاکستان کے مسلمانوں میں ہے، لہٰذاوہ پاکستان اور پاکستان کے مسلمانوں کو ملامت کرنے اور ہدف طعن و تشنیع بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، اُن کے سارے سیاسی لٹریچر کا مطالعہ کر لیجئے ، مرکزی نکتہ یہی ملے گا۔مثلاً: کوئی مسیحی یا ہندولڑ کی کسی مسلمان لڑکے سے محبت کی شادی کرتی ہے، تو کسی چھان بین یا تحقیق کے بغیر ہمارا لبرل میڈیا شور و غوغا شروع کر دے گا کہ جبری مسلمان بنایا گیا ہے، چنانچہ سکھر میں دو ہندولڑکیوں نے دو مسلمان لڑکوں سے محبت کی شادی کر لی، اس پر ہندو مذہبی رہنماؤں اور ہمارے لبرل سیکولر میڈیا نے آسمان سر پر اٹھالیا کہ جبری مسلمان بنایا جارہا ہے۔ ہمارے ایک لبرل جج نے اُن لڑکیوں کو اپنی عدالت میں بلایا اور دو ہفتے کیلئےانہیں اُن کے والدین کے پاس بھیج دیا ، حالانکہ ایسی صورت میں مسلمان لڑکیوں کو دارالامان بھیجا جاتا ہے۔ دو ہفتے کے بعد انہوں نے عدالت میں آکر بیان دیا :’’ہم نے اپنی آزادانہ مرضی سے اسلام قبول کیا ہے اور شادی کی ہے اور ہم اپنے شوہروں کے ساتھ جانا چاہتی ہیں ، چنانچہ انہیں شوہروں کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی گئی ۔ کیا ہندو مذہبی رہنماؤں اور ہمارے لبرل میڈیا نے اس پر کسی پچھتاوے یا معذرت کا اظہار کیا کہ ہم جھوٹا پروپیگنڈا کر رہے تھے، حالانکہ اسلام میں جبری کلمہ پڑھنے کا کوئی اعتبار ہی نہیں ہے، ایمان کا تعلق قلب وروح اور دل و دماغ کے ساتھ ہوتا ہے۔اس لیے میں نے ایک بار جنرل قمر جاوید باجوہ کی صدارت میں جی ایچ کیو میں ایک اجلاس میں کہا تھا: ’’اگر وائٹ ہاؤس کے سامنے دس سال کے سفید فام لڑکے اور لڑکیاں کلمہ اسلام پڑھیں تو امریکہ کا قانون اُن کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا، لیکن ہمارے ہاں سندھ اسمبلی میں یہ قانون بنایا جارہا تھا کہ اٹھارہ سال سے پہلے کوئی غیر مسلم اسلام قبول نہیں کر سکتا، جب وہ اٹھارہ سال کا ہو جائے گا تو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے سامنے پیش ہوگا اور وہ اُسے چھ ماہ تک تقابل مذاہب جاننے کیلئے کسی تربیت گاہ میں بھیجے گا اور اگر اس کے بعد بھی وہ اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہو تو پھر اس کی اجازت دی جائے گی‘‘۔ فاضل کالم نگار بتائیں کہ لبرل ازم کی شریعت میں یہ حدود و قیوداور شرائط کہاں لکھی ہیں تا کہ ہم بھی اُن سے استفادہ کر سکیں ۔
مسجدوں کو جلانے ، قرآن کو جلانے اور مساجد میں مسلمانوں پر حملہ کرنے کے واقعات امریکہ ، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس، نیوزی لینڈ اور یورپین یونین میں بھی رپورٹ ہوتے رہتے ہیں، لیکن اس وقت ہمارا میڈیا یہ واویلا نہیں مچاتا کہ مغرب میں مذہبی آزادی نہیں ہے یا اقلیتوں کو حقوق حاصل نہیں ہیں یا مغرب میں دہشت گردی پروان چڑھ رہی ہے، بس اب تھوڑا تھوڑا اسلاموفوبیا کی بات کی جانے لگی ہے۔ اب تو امریکہ اور یورپ میں بھی رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں موجود ہیں، امریکہ اور مغرب میں سفید فام عصبیت پر مبنی انتہائی دائیں بازو کی نسل پرست جماعتیں وجود میں آرہی ہیں اور تارکین وطن کیلئے ہرآنے والے دن نئی مشکلات سامنے آرہی ہیں، لیکن مغرب کی عصبیتوں اور نفرت انگیز رویوں کے خلاف میں نے اس شد ومد کے ساتھ وجاہت مسعود کے کالم کبھی نہیں پڑھے۔ پاکستان میں ہندوؤں ،سکھوں مسیحیوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں پر اپنی اپنی عبادت گاہوں میں اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے پر کوئی قدغن نہیں ہے، اب تو ہندوؤں کی ہولی و دیوالی اور مسیحیوں کے کرسمس وایسٹر کے تہوار بھی ٹی وی پر دکھائے جاتے ہیں۔ صرف ایک طبقے کا مسئلہ ہے اور اُن سے مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان کے دستور میں اُن کی جو حیثیت طے کی گئی ہے، اُسے تسلیم کریں اور دنیا کے کسی بھی ملک میں اس کا شہری دستور سے انحراف کا حق نہیں رکھتا ، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی تارکین وطن جب امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین ، کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ کی قومیت یا شہریت اختیار کرتے ہیں تو اُس ملک کے دستور کی پابندی کا حلف اٹھاتے ہیں، بلکہ امریکہ کے حلف نامے میں تو یہ بھی ہے :اگر مجھے کبھی امریکہ کے مفاد میں اپنے آبائی وطن کے خلاف لڑنا پڑا، تو بھی اس سے گریز نہیں کروں گا۔