• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلگام میں دہشت گردی کے بھیانک واقعے کے بعد بھارت کی جانب سے کسی تحقیقات اور ثبوت کے بغیر دیئے جانیوالے فوری ردعمل کو ملک میں طاری قطبیت کو کم کرنے کے موقع کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، ابھی تک پاکستانی حکومت نے ان سیاسی جماعتوں سے رابطہ نہیں کیا جو اس وقت پاکستانی عوام کی حقیقی آواز کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ایسے اقدامات کے بغیر قوم کے متحد ہونے اور بھارتی پروپیگنڈے کے خلاف ایک آواز بننے کی فطری صلاحیت رائیگاں جائیگی۔ بایں ہمہ، تحریک انصاف اور عمران خان نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر، واشگاف الفاظ میں مودی حکومت کے جھوٹے الزامات اور جنگی جنون کی مذمت کی ہے ۔ مودی سرکار کی جانب سے اعلان کردہ اقدامات نے اسلام آباد کے سامنے اور کوئی راستہ نہیں چھوڑا، اور اسے ترکی بہ ترکی جواب دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ بڑھتی ہوئی کشیدگی، بھارتی میڈیا کے جنگجویانہ بیانات کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھارت اور پاکستان، دونوں سے تحمل سے کام لینے اور کشیدگی کم کرنے کیلئے کہا۔ بگڑتی ہوئی صورتحال کے خطرے کے پیش نظر سعودی عرب اور ایران نے ثالثی کی پیشکش کی، جسکا خیرمقدم کیا جانا چاہئے۔ کچھ بھارتی اور پاکستانی وزراء کے بیانات انتہائی غیر ذمہ دارانہ رہے ہیں اور انہوں نے ماحول کو مزید خراب کردیا ہے۔ جس دوران بین الاقوامی برادری کا ذہن یوکرین اور مشرق وسطیٰ کے بحرانوں کیساتھ ساتھ ٹیرف جنگ کے نتائج سے بوجھل ہے، بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں۔ چنانچہ پہلگام سانحہ کی غیرجانبدار بین الاقوامی تحقیقات ہی آگے بڑھنے کا واحد صحیح راستہ ہے۔ پاکستان میں مینڈیٹ سے محروم اور زبردستی مسلط کردہ حکومت کا ردعمل بہت سے محاذوں پر ناکافی اور کمزور ہے۔ سفارتکاری کی مہارت سے نابلد وزراء اور حکومتی ترجمان کمزور اور متذبذب دکھائی دیئے، اور چند ایک مواقع پر انکے بیانات خود اپنے ملک پر فرد جرم عائد کرنے کے مترادف تھے۔ 2019ء کے پلوامہ بحران کے دوران پاکستانی ردعمل اس سے بہت مختلف اور سبق آموز تھا۔ عمران خان کی قیادت میں ہمارا ردعمل یک جان، جراتمندانہ اور جچا تلا تھا۔ یہی وہ نقطہ نظر تھا جس نے بھارتی پروپیگنڈے کو بے نقاب کیا اور تمام بین الاقوامی محاذوں پر صورتحال تیزی سے بھارت کیخلاف ہو گئی۔ اس انتہائی موثر سفارتی اور فوجی ردعمل نے اس وقت بھی بھارتی عزائم کو کافی دیر سے روکے رکھا ہے اور انہیں خواہش کے باوجود کسی فوجی مہم جوئی کی جرات نہیں ہوئی ہے۔میرے سیاسی کیریئر کا بڑا حصہ سفارتکاری میں بسر ہوا ہے، اور میں پاکستان کا سب سے طویل عرصہ تک وزیر خارجہ رہا ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے کہ سفارتی سطح پر پیشہ ورانہ اور فعال سفارتی رسائی، جو ماضی قریب تک پاکستان کی پہچان تھی، کی جگہ سفارتی گراوٹ نے لے لی ہے۔ جدید دنیا میں بین الاقوامی میدان کسی طور داخلی حالات سے الگ نہیں رہ سکتا۔ اس ضمن میں سب ٹھیک نہیں ہے۔ آئی ایم ایف نے ہمارے میکرو اکنامک اشاریوں میں استحکام کو تسلیم کیا ہے لیکن ساتھ ہی رواں سال پاکستان کی شرح نمو کو2.6فیصد تک بتایا ہے۔ مقامی ماہرین اس معمولی نمو سے بھی اختلاف کرتے ہیں۔ عالمی بینک کے مطابق پاکستان کی 42فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور اس سال 1.9ملین مزید لوگ خط غربت سے نیچے آجائیں گے۔ پاکستان کو غربت میں کمی لانے اور سالانہ دو سے تین ملین ملازمتیں پیدا کرنے کیلئے ہر سال چھ سے آٹھ فیصد شرح نمو درکار ہے۔ 66فیصد نوجوان آبادی میں ہوشربا اضافے کیساتھ بیروزگاری ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ہماری برآمدات پر چھبیس فیصد ٹیرف عائد کرکے امریکہ نے نیا غیر یقینی پن پیدا کردیا ہے گا۔ اس پیچیدہ اور مبہم صورتحال میں نہری منصوبے اور نئے معدنی بل کے تنازعہ نے جلتی پر مزید تیل گرایا ہے۔ سندھ میں حزب اختلاف کی جماعتوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور بار ایسوسی ایشنز نے پی پی پی کو اس منصوبے کیلئے پہلے دی گئی منظوری پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر دیا۔ وزیراعظم کی یقین دہانیاں اور بلاول بھٹو زرداری کی تقاریر منصوبے کے مخالفین کو مطمئن نہیں کر سکیں گی تاوقتیکہ سی سی آئی کے نوٹی فکیشن کو واپس لیا جائے۔ قلیل مدت اقتصادی ترقی صرف زراعت کے شعبے سے ہی آسکتی ہے، لیکن اسکی بنیادی رکاوٹ پانی نہیں بلکہ زمین ہے۔ تاہم سسٹم میں موجود پانی کی دستیابی کا زیادہ سے زیادہ استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ بھارت کے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے یک طرفہ فیصلے نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے روشن امکانات ہیں لیکن بلوچستان میں شورش ایک بہت بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں منظور ہونیوالا معدنی بل جے یو آئی (ف) نے مسترد کر دیا ہے اور پارٹی نے بل کے حق میں ووٹ دینے والے ارکان کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دریں اثنا، خیبرپختونخوا اسمبلی میں تمام اپوزیشن جماعتوں نے معدنیات کے مجوزہ بل کو مسترد کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کے بہت سے قانون سازوں نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور پارٹی کے قید بانی چیئرمین عمران خان سے اجازت ملنے تک بل کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی حکومت نے نہروں کے منصوبے اور معدنیات کے بل میں غلط طریقے سے کام کیا ہے۔اندرونی اور بیرونی چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو فوری طور پر اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ پاکستان بیرونی اور اندرونی چیلنجوں میں گھرا ہوا ہے۔ ملک میں اتحاد کی فضا پیدا کرنے کیلئے مشکل لیکن ضروری راستے پر چلنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی اسٹیک ہولڈر کو وسیع البنیاد اتفاق رائے کے بغیر اس منجدھار میں تنہا اترنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ اس بار ہمارے پاس دوسرے مواقع نہیں ہیں۔ ضروری ہے کہ فوری طور پر اے پی سی بلائی جائے کیونکہ موجودہ پارلیمنٹ قانونی جائزیت نہیں رکھتی اور غیر فعال ہے۔ سب سے زیادہ مقبول وفاقی پارٹی اور اسکے لیڈر عمران خان کو بھی بحث میں شامل کیا جائے تاکہ ایک پائیدار حل نکالا جا سکے جو پاکستانی عوام کیلئے قابل قبول ہو۔ (صاحب تحریر پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین ہیں )

تازہ ترین