انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کے ایک اور غبارے سے ہوا نکل گئی۔ کپتان کے وائٹ پیپر میں سرگودھا کے حلقہ NA-68 کا ذکر بھی ہے۔ وہ اپنی پریس کانفرنس میں بھی اس کا حوالہ دیتا۔ 11مئی کے عام انتخابات میں میاں محمد نواز شریف (لاہور میں اپنے آبائی حلقے 120 کے علاوہ) یہاں سے بھی اُمیدوار تھے۔ 15اُمیدواروں میں دیگر قابلِ ذکر امیدوار تحریکِ انصاف کے نورِ حیات کلیار اور پیپلز پارٹی کے سید نصرت علی شاہ تھے۔ انتخابی نتائج کے مطابق میاں صاحب نے 140546، کلیار نے 45463اور شاہ صاحب نے 21395ووٹ حاصل کئے ۔ میاں صاحب اور ان کے قریبی حریف (تحریکِ انصاف کے کلیار) میں 95ہزار کا مارجن تھا۔ میاں صاحب نے لاہور والی سیٹ رکھی تو ان کی خالی کردہ اس نشست پر ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے سردار محمد شفقت حیات 67888 ووٹ لے کر جیت گئے۔ اب تحریکِ انصاف کے ملک نذیر احمد سوبی نے 40169ووٹ حاصل کئے تھے۔ کپتان کو یہاں ضمنی انتخاب کے حوالے سے کوئی شکایت نہیں ۔ 11مئی کے عام انتخابات کے سلسلے میں بھی وہ 373232 رجسٹرڈ ووٹرز پر مشتمل اس حلقے میں وہ صرف ایک پولنگ اسٹیشن پر’’دھاندلی‘‘ڈھونڈ پائے تھے۔ 1557 ووٹرز پر مشتمل اس پولنگ اسٹیشن میں 1037 ووٹ کاسٹ ہوئے اور ان میں سے 779 ووٹ نواز شریف نے حاصل کئے۔ پریزائڈنگ افسر نے بھی اس پولنگ اسٹیشن کا یہی رزلٹ دیا۔ ریٹرننگ افسر کے ہاں یہ 779 ووٹ 7879درج ہوگئے۔ لیکن اصل بات یہ کہ اس سے اس حلقے کے اصل (مجموعی) رزلٹ میں کوئی فرق نہیں پڑاتھا۔ ریٹرننگ افسر کے جاری کردہ رزلٹ میں بھی نوازشریف کے اتنے ہی ووٹ تھے ، جو اس حلقے کے پریزائڈنگ افسر کے دیئے گئے نتائج کو جمع کرنے سے بنتے تھے۔ گویا 779 کی بجائے 7879 ٹائپ کی غلطی تھی۔ تمام ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد الیکشن کمیشن کا اعلان بھی یہی تھا۔ کوئی ریٹرننگ افسر 1557ووٹرز پر مشتمل پولنگ اسٹیشن کے نتیجے میں ایک اُمیدوار کے 7879ووٹ بقائمی ہوش و حواس کیسے درج کر سکتا ہے؟ یہ کامن سینس کی بات تھی، لیکن وہ جو کسی نے کہا، کامن سینس، اتنی کامن بھی نہیں ہوتی اور اگر نیت صرف الزام تراشی کی ہو تو وہاں کامن سینس کا کیا کام؟ کپتان کا کہنا ہے کہ اس نے ’’انتخابی دھاندلیوں‘‘ کے خلاف قانون کا راستہ اختیار کیا، قانون کے مطابق الیکشن ٹربیونلز میں عذرداریاں داخل کیں لیکن ایک سال گزر جانے کے بعد بھی اگر فیصلہ نہ ہو تووہ عوام کی عدالت میں جانے کے سوا کیا کرے؟ تحریک انصاف کی داخل کردہ عذرداریوں کے حوالے سے شامی صاحب نے گزشتہ شام ایک دلچسپ بات بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے تمام عذرداریاں تو نہیں دیکھیں، البتہ جو عذرداریاں دیکھنے کا انہیں موقع ملا ، وہ صرف الزامات پر مشتمل تھیں، کوئی ثبوت ، کوئی شہادت، کوئی دلیل موجود نہیں تھی۔ شامی صاحب کے بقول ، پٹیشنر کے خیال میں اس کا کام شاید صرف الزام لگانا تھا، اس کے حق میں کوئی ثبوت، کوئی شہادت، تلاش یا تخلیق کرنا الیکشن ٹربیونل کی ذمہ داری تھی۔ مزید دلچسپ بات یہ کہ عذرداری داخل کرنے کے بعد پٹیشنز یا اس کے وکیل نے اس کی پیروی کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ چنانچہ پیشیوں پر پیشیاں پڑتی ہیں ، لیکن پٹیشنر یا اس کا وکیل موجود نہیں ہوتے۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک پٹیشنرپر ٹربیونل نے 30ہزار روپے جرمانہ عائد کردیا۔ ہم گزشتہ کالم میں سعد رفیق کے حلقہ 125 کی کہانی تفصیل سے بیان کرچکے، یہاں تحریکِ انصاف کے جناب حامد خاں، خواجہ صاحب کے مدمقابل تھے۔ خاں صاحب کا شمارملک کے ممتاز قانون دانوں میں ہوتا ہے۔ وہ سپریم کورٹ بار کے صدر بھی رہے۔ ان سے زیادہ عدلیہ کے ادب و احترام کے تقاضوں سے کون آگاہ ہوگا۔ لیکن لاہور الیکشن ٹربیونل میں خان صاحب کے وکلاالیکشن ٹربیونل کے سربراہ ،ایماندار اور دیانتدار جج کی شہرت رکھنے والے کاظم علی ملک کو مختلف حیلوں بہانوں سے زچ کرتے رہے، ایک دن تلخی پر اتر آئے، ملک صاحب نے بالآخر عافیت اور اپنی عزت کا تحفظ اسی میں جانا کہ الیکشن کمیشن کو اس کیس سے دستبرداری کا لکھ دیں۔ اب یہ کیس فیصل آباد ٹربیونل میں ہے اور حامد خاں صاحب کے وکلاء پیش ہی نہیں ہوتے۔
کپتان الیکشن ٹربیونل پر، عذرداریوں کے فیصلوں میں تاخیر کا الزام لگاتا ہے، اس حوالے سے حقائق یہ ہیں کہ پنجاب میں قومی اسمبلی کے 147 حلقوں میں 64پٹیشنز دائر ہوئیں ۔ ان میں سے 49 کا فیصلہ ہوچکا، 15باقی ہیں اور ان میں سعد رفیق والا حلقہ 125بھی ہے اور یہاں حامد خاں کی الیکشن پٹیشن کے فیصلے میں تاخیر کے ذمہ دار کوئی اور نہیں، خود پٹیشنر کے وکلاء ہیں۔ کپتان قومی اسمبلی کے جن 4حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا مطالبہ کرتا ہے، اِن میں حلقہ 125بھی ہے اور لاہور کا حلقہ 122بھی، جہاں خود کپتان، سردار ایاز صادق کے مقابلے میں شکست سے دوچار ہوا۔ کپتان اکتوبر 2002 میں بھی یہاں سردار ایازصادق ہی سے ہارا تھا۔ سردار ایاز تب بھی مسلم لیگ(ن) کے اُمیدوار تھے۔ میاں صاحبان اپنی فیملیز سمیت جلاوطن تھے اور ڈکٹیٹر نے ان کی مسلم لیگ کو تباہ کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی تھی۔ وہ لاہور سے میاں برادران کا نام و نشان تک مٹانے پر تلا ہوا تھا۔ اس کے باوجود سردار ایاز صادق کپتان کے مقابلے میں فتح یاب ہوئے۔ کپتان انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا مطالبہ کرتا ہے لیکن الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ انگوٹھوںکی تصدیق کے لیے میگنیٹک انک کا استعمال ضروری تھا، جو مئی 2013 کے الیکشن میں نہیں ہوسکا۔
ہمارا کہنا یہ ہے کہ اگرالیکشن نتائج کی شفافیت جاننا ہی مطلوب و مقصود ہے تو اس کے لیے انگوٹھوں کی تصدیق پر اصرار ہی کیوں؟ ہر پولنگ بوتھ پر تحریکِ انصاف کے اُمیدواروں کے ایجنٹ ووٹرز کی تصاویر والی کمپیوٹرائزڈ لسٹوں کے ساتھ موجود تھے۔ ان کی موجودگی میں پولنگ شروع اور مکمل ہوئی۔ ووٹوں کی گنتی کے عمل میں بھی وہ شریک تھے جس کے بعد پریزائڈنگ افسروں نے الیکشن کمیشن کے جاری کردہ فارم پر ، اپنے دستخطوں کے ساتھ، اپنے پولنگ بوتھ / پولنگ اسٹیشن کا رزلٹ ہر اُمیدوار کے پولنگ ایجنٹ کو دیا۔ کپتان جن چار حلقوں میں انگوٹھوں کی تصدیق کا مطالبہ کرتا ہے، یہاں کے پولنگ افسروں کے جاری کردہ ہر پولنگ اسٹیشن کا رزلٹ بھی یقینا ان کے دفتر میں موجود ہوگا۔ ریٹرننگ افسروں کے جاری کردہ نتیجے کا ان سے موازنہ کر لیا جائے۔ دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہوجائے گا۔
جنگ /جیو کے خلاف کپتان کی مہم جاری ہے۔ کراچی میں اسد عمر اور اسلام آباد میں تحریک ِ انصاف کی بلبل ہزار داستان شیریں مزاری صاحبہ نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں اس لَے کو آگے بڑھایا۔ مسئلہ یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے اس دور میں ہر چیز کیمرے میں محفوظ ہوجاتی ہے چنانچہ احوالِ واقعی کے بیان اور جواب آں غزل کے طور پر جیو کپتان کے تضادات کی نشاندہی کر رہاہے۔ خود شیریں مزاری صاحبہ کے متعلق لوگوں کو یاد ہے کہ ستمبر 2012 میںتحریکِ انصاف سے مستعفی ہوتے ہوئے اُنہوں نے کیا کیا گلفشانی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا ، تحریکِ انصاف پر وڈیروں ، سرمایہ داروں اور بیوروکریسی کے ریٹائرڈ کل پرزوں کا قبضہ ہوچکا ہے۔ اُنہوں نے تحریکِ انصاف کو ہائی جیک کرنے کے لیے سرمائے کے بے دریغ استعمال کی نشاندہی بھی کی تھی۔ تحریک انصاف کی اکنامک پالیسی کو اُنہوں نے آئی ایم ایف کی خواہشات کا عکاس قرار دیا تھا۔ تب اُنہوں نے سیاسی جماعتوں میں اس جمہوری اصول کی نشاندہی بھی کی تھی کہ پارٹی کسی ایک فرد کانہیں، اجتماعی قیادت کا نام ہوتی ہے جبکہ تحریک کی اجتماعی قیادت پر اب وہی لوگ غالب ہیں ، قومی سیاست کو جن سے نجات دلانے کا نعرہ لے کر عمران خاں سیاست میں آئے تھے۔