22 اپریل 2025ءکو پہلگام حملے میں 26 شہریوں کی ہلاکت کے چند منٹوں کے اندر ہی بھارت نے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا دیا۔ امدادی ٹیموں کے جائے وقوعہ پر پہنچنے سے پہلے ہی بھارتی حکام نے پاکستان کیخلاف ایف آئی آر درج کر لی۔ ایک منظم میڈیا مشینری نے بغیر کسی ثبوت، تحقیق یا توقف کے الزام تراشی شروع کر دی۔
بھارت کا پاکستان پر فوری الزام اس بار عالمی سطح پر کم پذیرائی حاصل کر سکا۔ ماضی کے برعکس، جب مغربی ممالک نئی دہلی کے الزامات کی تائید کرتے تھے، اس بار عالمی دارالحکومتوں نے خاموشی اختیار کی۔ ٹھوس انٹیلی جنس یا آزادانہ طور پر تصدیق شدہ شواہد کی عدم موجودگی نے نہ صرف عالمی سطح پر سوالات اٹھائے بلکہ بھارت کے بیانیے کی کمزوری کو بھی بے نقاب کیا۔یہ رویہ نیا نہیں ہے۔ یہ ایک منظم حکمت عملی ہے:سانحے کا فائدہ اٹھانا، قوم پرستی کو ہوا دینا، داخلی ناکامیوں سے توجہ ہٹانا، اور گہرے سیاسی مقاصد کا حصول۔ 2019 میں پلوامہ واقعے کو آرٹیکل 370 کی منسوخی اور کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمےکیلئےاستعمال کیا گیا۔ آج کا ہدف زمین نہیں، بلکہ پانی ہے۔
بھارت اب سندھ طاس معاہدے کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے یہ تاریخی معاہدہ 1960 میں ورلڈ بینک کی ثالثی سے طے پایا تھا۔ یہ معاہدہ، جو جنگوں اور سیاسی کشیدگیوں کے باوجود قائم رہا، پاکستان کو دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے پانیوں کے حقوق فراہم کرتا ہے یہ دریا ہماری زراعت، ماحولیاتی نظام اور عوام کیلئے زندگی کا ذریعہ ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ معاہدے میں کسی بھی ملک کو یکطرفہ طور پر اس پر عمل درآمد معطل یا ختم کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ بھارت کا پانی کے بہاؤ کو روکنے کا فیصلہ نہ صرف اشتعال انگیز ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی بھی ہے۔
حالیہ رپورٹس کے مطابق، بھارت نے چناب پر بگلیہار ڈیم سے پاکستان کو پانی کی فراہمی روک دی ہے اور جہلم پر کشن گنگا منصوبے سے پانی کے بہاؤ کو کم کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ اقدامات قیاس آرائی نہیں ، عملی اقدامات ہیں۔ یہ ایک طویل المدتی حکمت عملی کو ظاہر کرتے ہیں جسکا مقصد انتقامی کارروائی کے بہانے پاکستان کو اس کے زندگی بخش پانی سے محروم کرنا ہے۔ بھارت صرف ایک معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کر رہا وہ پانی کو ہتھیار بنا رہا ہے۔ یہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ وجودی خطرہ بھی ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے طاقتور الفاظ’’یا تو ہمارا پانی بہے گا، یا ان کا خون‘‘ جنگ کی دعوت نہیں بلکہ پاکستان کی سرخ لکیر کا اعلان ہیں۔
اس کے برعکس، پاکستان نے تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے پہلگام حملے کی آزاد، غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ہماری سول اور عسکری قیادت نے امن، علاقائی استحکام اور قانونی حل کیلئے اپنی مستقل وابستگی کا اعادہ کیا ہے۔بھارت کے اندر بھی سنجیدہ خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس نے پہلگام حملے کے بعد سیکورٹی اور انٹیلی جنس کی سنگین ناکامیوں کا الزام مودی حکومت پر عائد کیا ہے، خاص طور پر یونین ہوم منسٹری کی سیکورٹی گرڈ میں خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ بائیسارن میڈو علاقے کو سیکورٹی فورسز کو مطلع کیے بغیر قبل از وقت سیاحوں کیلئے کھول دیا گیا، ایک غیر ذمہ دارانہ اقدام جس سے علاقہ غیر محفوظ ہو گیا۔اس سال کے آخر میں بھارت کو اہم ریاستی انتخابات کا سامنا ہے اور اب، جلد بازی میں الزامات لگا کر، مودی اپنے ہی بیانیے سے باہر ہو چکے ہیں۔
پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگانا نہ صرف غلط ہے بلکہ توہین آمیز بھی ہے۔ عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان سے زیادہ قیمت کسی قوم نے ادا نہیں کی۔ ہم نے 80ہزار سے زائد جانیں فوجی، شہری، بچے کھو دیے اور 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان برداشت کیا۔ اسکے باوجود، پاکستان دنیا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صف اول کی ریاست کے طور پر ڈٹا رہا ۔ ہم نے نیٹ ورکس کو ختم کیا، عسکریت پسندوں کو نکالا اور ان علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کیا جو کبھی انتہا پسندی کے زیر اثر تھے۔ آپریشن ضربِ عضب سے ردالفساد تک، پاکستان نے دہشت گردوں کو پناہ نہیں دی — بلکہ ان کا تعاقب کیا۔
اس مزاحمت کے مرکز میں پاکستان آرمی کھڑی ہے دنیا کی سب سے قابل، پیشہ ور اور مضبوط افواج میں سے ایک۔ جنگ میں ڈھلی اور قربانیوں سے مضبوط ہوئی، ہماری مسلح افواج پاکستان کی خودمختاری، سرزمین اور زندگی کے ذرائع کے دفاع کیلئے ہمیشہ تیار ہیں۔ دنیا کو یاد رکھنا چاہیے: پاکستان ایک جوہری ریاست ہے۔ ہمارا امن کا تعاقب کبھی کمزوری نہ سمجھا جائے۔ اگر اشتعال دلایا گیا، تو پاکستان اپنا دفاع کرے گا فیصلہ کن اور مکمل طور پر۔
دریں اثنا، بھارت کی مصنوعی غصے کی انسانی قیمت بڑھتی جا رہی ہے۔ دنیا اب دھند کو چیر کر حقیقت دیکھنے لگی ہے۔ بھارت اپنے داخلی میڈیا پر غالب ہو سکتا ہے لیکن وہ بین الاقوامی جانچ پڑتال کو خاموش نہیں کر سکتا۔ سچائی اپنی رفتار رکھتی ہے، اور حقائق بھارت کے اندر سے بھی سامنے آنے لگے ہیں۔یہ اب محض بیان بازی یا معمول کی کشیدگی کا معاملہ نہیں رہا۔ یہ پانی کے بارے میں ہے پاکستان کے مستقبل کیلئے سب سے اہم، ناقابلِ مذاکرات وسیلہ۔ ہم ہمیشہ امن کے حامی رہے ہیں، لیکن امن کی پیشکش اس وقت نہیں کی جا سکتی جب دریا روکے جا رہے ہوں اور معاہدے پھاڑے جا رہے ہوں۔
کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ اگر بھارت سمجھتا ہے کہ وہ ہمارے دریا موڑ سکتا ہے، معاہدے دوبارہ لکھ سکتا ہےاور پاکستان کی بقا کے ساتھ کھیل سکتا ہے، تو وہ سخت غلطی پر ہے۔ پاکستان ایک غیر فعال تماشائی نہیں ۔ ہم ایک خودمختار ریاست، ایک جوہری طاقت، اور استقامت میں ڈھلی ہوئی قوم ہیں۔ ہم جنگ نہیں چاہتے لیکن اگر پانی کو ہتھیار بنایا گیا، تو مزاحمت ہمارا فرض بن جائے گی۔ اور اگر مجبور کیا گیا، تو تاریخ یہ ریکارڈ کرے:پاکستان نے اس تنازعے کو جنم نہیں دیا، لیکن وہ اسے ختم کرےگا وقار، عزم، اور اپنی مکمل قوتِ ارادی کے ساتھ۔