• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم دو ملکوں نے ایٹم بم کیا بنائے۔ روز ایک دوسرے کو دھمکیاں دیتے پچاس سال گزار لیے ہیں۔ ساحر لدھیانوی نے اسلئے کہا تھا ’’جلادو یہ دنیا‘‘۔

عنوان بالا والے شاعر ہیں علی سردار جعفری جنہوں نے اس طرح کے جنگی ماحول اور ناآسودگی کو تسلسل سے دیکھتے ہوئے لکھا تھا اور ہم لوگوں کے سامنے پڑھا تھا۔

(’’تم آئو گلشن لاہور سے چمن بردوش... ہم آئیں صبح بنارس کی روشنی لیکر ہمالیہ کی ہوائوں کی تازگی لیکر.... پھر اسکے بعد یہ پوچھیں گے کون دشمن ہے)۔ اور اسکے بعد جواب میں احمد فراز نے لکھا تھا ’’چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے‘‘۔

مگر اب تو مودی صاحب نے وہ ماحول بھی نہیں رہنے دیا جس میں ہم لوگ ایک دوسرے کے سامنے ایسے شعر لکھتے اور پڑھتے تھے۔ اب تک ساری دنیا میں جہاں جہاں جنگ ہوئی، بے مقصد اور وحشت اوڑھ کر سپاہیوں کو مرواتے رہے۔ جیسے وہ تو انسان نہیں۔ ہر زمانے میں جنگوں کے خلاف بولنے والے فلسفی، شاعر اور دانشور ہوتے تھے اور آج بھی فلسطین کے خلاف نیتن یاہو مسلسل جنگ پر آمادہ اور بچے کچھے کونوں کھدروں میں چھپے فلسطینی بچوں تک غذا کے ٹرک تک نہیں پہنچنے دے رہا۔ یوکرین والا خود کو پروموٹ کرنے کے لئے روز امریکی ہتھیار مانگتا اور آبادیوں کو بے کفن قبرستان میں بدل کر، انٹرویو دیتا پھر رہا ہے۔ اب تو اس کے ہاتھ آسمان تک پہنچ گئے ہیں۔ اور انڈیا میں مودی نے نیلم ویلی کے غریب مگر بہادر لوگوں کی جانب بے ضرورت بمباری شروع کی ہوئی ہے۔ کرن، ٹٹوال، کندن اور رتی گلی کے نوجوانوں کو میں نے فون کرکے حال پوچھا تھاتو وہ ہنستے ہوئے کہنے لگے ’میڈم! ہم سب باہمت اورتیار ہیں۔ کوئی قدم تو بڑھائے۔ ہماری عورتیں، آپ نے دیکھی تھیں کیسے اکیلی سر پر سامان اٹھائے نیلم ویلی کے دشوار رستوں پر دن رات چلتی ہوئی، بکریوں کو بھی سنبھالتی ہوئی چلتی تھیں۔ میڈم! آپ نے ہماری مائیں دیکھی تھیں۔ چودہ بچے پیدا کرکے بھی، آپ کو بھی بازوئوں میں بھرکر شاردا کے اونچے پہاڑی راستوں پر چلی تھیں۔

پاکستان انڈیا کے وہ لوگ جنہوں نے انگریزوں کو نکال باہر کیا تھا۔ قتل و غارت انہوں نے تو نہیں پھیلائی تھی۔ کیسے مسلمانوں کے قافلے لوٹے گئے تھے اور سکھوں کی کرپانوں کو چلتا ہوا دیکھ کر، منٹو نے افسانہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ لکھا تھا۔ خوشونت سنگھ نے انگریزی کے ناول میں اس ہوشربا قتل عام کو للکارا تھا کہ آزادی اس لئے چاہئے تھی کہ مردوں کو مار دو اور عورتوں کو اغوا کرلو۔ امرتا پریتم اور احمد راہی نے نظمیں لکھیں، گاندھی جی نےمرن برت رکھا۔ قائداعظم نے بار بار دہرایا کہ ہم نے انگریز سے آزادی ایک دوسرے کو مارنے کے لئے نہیں حاصل کی تھی۔

ان تمام زبانوں کے لکھنے والوں نے ایسے سانحات افسانوں میں ڈھالے کہ ہم جیسے لوگ ابھی بارہ سال کے تھے، کم سنی میں ’’کھول دو‘‘ جیسی ظالم کہانیاں پڑھ کر معصومیت سے اماں سے پوچھتے ’’یہ کیوں کہہ رہی ہے’ کھول دو‘۔ اماں ہمارے ہاتھ سے پرچہ لیکر روتے ہوئے کہتیں۔ بچو تم خوش بخت ہو کہ بچ گئے۔ ٹرینوں، ٹرکوں، بیل گاڑیوں اور پیدل چلنے والوں کو جس طرح راجندر سنگھ بیدی اور احمد ندیم قاسمی نے لکھا۔ ہمیں تو بڑے ہوکر ’’یہ داغ داغ اجالا‘‘ کا مطلب، بہت دیر میں بلکہ 1965ء کی جنگ میں یاد آیا، جب شاکر علی (مصور) نے کہا ’’میں تو چاند کو دونوں ملکوں میں چمکتا دیکھتا ہوں‘‘۔ انتظار حسین نے کہا یہ زمانہ تو کوئل کے کوکنے کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں بلیک آئوٹ میں کوئلیں بھی روٹھ گئی ہیں۔ سرحدوں پہ روز جوانوں کے لاشے، کربلا کی یاد دلاتے اور حجاب امتیاز علی نے بلیک آئوٹ کے دنوں میں موم بتی کی روشنی میں ڈائری لکھی۔ بھیشم ساھنی نے دلی میں بیٹھ کر ایسا ناول لکھا کہ جب اس کا ڈرامہ بنایا گیا تو سچ دیکھ کر سارے انڈین احتجاج اس قدر کرتے رہے کہ آخری قسط چلاتے ہوئے دلی میں بلیک آئوٹ کردیا گیا۔ منٹو نے ٹٹوال کا کتا لکھا، پچھلے برس میں ٹٹوال گئی۔ یہ دیکھنے کہ ایک زمانہ تھا کہ لوگ اپنی بستیوں میں بلی کتے کی محبت سے رکھوالی کرتے تھے۔ ایک دم تقسیم کا لفظ سنا نہیں، ہر گلی میں گولیاں اور لاشیں تھیں۔ یہ سب پڑھنے اور دیکھنے کے بعد ہم نے پھر جنگ لڑی اور ایسی جنگ کہ ہندو فوجیوں نے پاکستانی جرنیل سے ہتھیار لے لئے۔ بنگلہ دیش بن گیا۔ دونوں طرف کی فوجوں نے عوام کی محبتوں کو پھر خون میں نہلایا ۔’’کارگل‘‘ ایسا ہوا کہ پھر دونوں ملکوں میں راستے بند، سرحدیں بند، پھر انڈین رہنما پاکستان بس میں بیٹھ کر آئے تھے اور یہ بھی دشمنوں کو پسند نہ آیا۔ پھر سرحدیں بند، اور اب تو آٹھ برس ہوگئے۔ دوستی کی بس اور ٹرین کو کھڑے کھڑے زنگ لگ چکا ہے۔ مودی صاحب کو پورے ہندوستان جس میں برما، بنگلہ دیش، کشمیر اور پاکستان شامل ہیں ، حکومت کرنے کے شوق نے اس مقام پر پہنچا دیا کہ وہ پنڈت نہرو کے کیے ہوئے عالمی پانی کے معاہدے کو اپنے جنوں میں ختم کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ کسی کو شعور نہیں کہ لڑائیاں، جاہل لوگ کرتے ہیں۔ لڑائی سے مسئلے حل نہیں ہوتے۔ نہ گھروں کے اور نہ ملکوں کے۔ اب تو دونوں ملکوں میں ایسے شاعر بھی نہیں کہ شعری زبان میں فتنہ انگیزی کو ختم کریں۔ میں نے زہرہ آپا اور حمید شاہد کو کہا ہے۔ کچھ لکھیں۔ کچھ سکھائیں۔

تازہ ترین