بالآخر وہ لمحہ آ ہی گیا جس کا اندیشہ برسوں سے موجود تھا، لیکن جس کا تصور بھی عقل کو لرزا دیتا ہے۔ دو جوہری طاقتیں، ایک ہی خطہ، مشترکہ تاریخ کے زخم، اور دشمنی کے سائے میں لپٹی ہوئی سرد گرم ہوا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی، جو اپنے آپ میں تاریخ کے کئی بابوں کو چیرتی ہوئی آئی ہے، ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکی ہے جہاں جنگ و امن کی سرحدیں دھندلا رہی ہیں۔
اس ساری کہانی کا آغاز اس وقت ہوا جب کشمیر کی وادی میں ایک خونیں شام نے چالیس سے زائد بھارتی سیکورٹی اہلکاروں کی جان لے لی۔ پلوامہ کا سانحہ ایک ایسی چنگاری بن گیا جس نے نئی دہلی کو اشتعال کی آگ میں جھونک دیا۔ جواب میں، بھارتی فضائیہ نے پاکستان کے علاقوں پر حملہ کیا۔جس میں صرف ایک پاکستانی پرندے کی موت کے شواہد ملے، وِنگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان گرفتار ہوا مگر ہم نے اسے اچھی سی چائے پلاکر واپس انڈیا بھیج دیا۔
اب، 2025کا سال ہے۔ ہوا پھر وہی تپش لے کر آئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارت نے پاکستان کی حدود میں کچھ مقامات کو نشانہ بنایا، جن میں معصوم جانیں شہید ہوئیں، جن کے لاشے تاریخ کی خاموشی میں بھی چیخ اٹھے۔ بے گناہ شہریوں کا خون ہوا، کچھ زندگیاں زخموں سے آلودہ ہو ئیں۔ جوابی کارروائی میں پاکستان نے صرف فوجی علاقوں اور ائیر بیسز پر حملے کیے، میزائلوں کی گرج اور طیاروں کی گھن گرج ابھی میڈیا کی وساطت سے پوری دنیا سن رہی ہے۔ جیسے پاکستان نے کہا تھا کہ ہم جب جوابی کارروائی کریں گے تو پوری دنیاکو پتہ چلے گا۔ بھارت کے پانچ جنگی طیارے، بے شمار ڈرونز، ایک انفنٹری بریگیڈ ہیڈکوارٹر، اور ایک بٹالین ہیڈکوارٹر تو پاکستان نے پہلے تباہ کر دئیے تھے۔ اب ’’آپریشن بنیان المرصوص‘‘ کے تحت بھارت کے متعدد فوجی اہداف پر حملے کیے، جن میں پٹھان کوٹ اور اُدھم پور کے فوجی اڈے شامل ہیں۔ ان حملوں کے دوران بھارت کاایئر ڈیفنس سسٹم۔ ایس چارسو بھی تباہ ہوا۔ بھارت اس کا اعتراف نہیں کررہا، لیکن میدانِ جنگ کی خاموش زمین اور خون سے تر آسمان کچھ اور کہانیاں سناتے ہیں۔
یہ جنگ، اگرچہ ابھی تک صرف فضا اور توپ خانے تک محدود ہے، لیکن اس کی گونج پورے خطے کو ہلا رہی ہے۔ دونوں ملکوں کی افواج ہائی الرٹ پر ہیں، اور عوام کی نبض تیز ہو چکی ہے۔ ہر طرف سوالات ہیں، خوف ہے، اور کہیں کہیں خاموش دعائیں بھی۔
مگر اس کہانی کا ایک اور چہرہ بھی ہے بین الاقوامی ردعمل۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ بھارت کا حملہ ’’شرم ناک‘‘ ہے اور امید کی کہ یہ معاملہ جلد ختم ہو جائے گا۔ یہ ایک معمولی بیان تھا، لیکن اس کے پیچھے امریکہ کی وہ سیاسی چالاکی چھپی تھی جو ہمیشہ ہر جنگ کو کاروبار کی نظر سے دیکھتی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے دونوں ممالک کو رابطے کھلے رکھنے کی تلقین کی گویا دو پرانے دشمنوں کو ایک میز پر لانے کی کوشش۔
برطانیہ نے بھی وہی راگ الاپا:تحمل، صبر، مذاکرات۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ روس، ہمیشہ کی طرح، بیچ کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ اگر دونوں ممالک راضی ہوں، تو روس تصفیہ کرانے کو تیار ہے۔ چین نے دونوں کو برداشت کی تلقین کی، اور ایران نے ثالثی کی پیشکش کی۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل، گوٹیریس، نے صاف کہہ دیا کہ دنیا دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان مکمل جنگ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔یہ سب آوازیں بتاتی ہیں کہ دنیا ڈری ہوئی ہے اور ڈرنا بھی چاہیے۔ پاکستان اور بھارت دونوں جانتے ہیں کہ اگر یہ جنگ ایٹمی سطح تک پہنچ گئی، تو صرف دو ملک نہیں، پورا جنوبی ایشیا راکھ میں بدل جائے گا۔ پاکستان کی حکمت عملی ہمیشہ سے واضح رہی ہے: اگر ریاستِ پاکستان کو بقا کا مسئلہ درپیش ہو، تو ایٹمی اسلحے کے استعمال میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہو گی۔ یہ صرف عسکری مسئلہ نہیں، یہ نظریاتی بقا کا سوال ہے۔
پاکستانی سوچتے ہیں کہ دنیا میں ستاون اسلامی ممالک موجود ہیں۔ اگر پاکستان نہ رہا، تو چھپن باقی رہیں گے۔ لیکن بھارت، ایک ایسا ملک ہے جہاں ہندو مت اپنی تمام تر تہذیبی شناخت کے ساتھ موجود ہے۔ بھارت کے خاتمے کا مطلب ہندو مت کی عالمی سطح پر مکمل نابودی ہو گا۔ اس لیے بھارت کو جنگ کی قیمت کا اندازہ کچھ زیادہ ہی شدت سے ہے۔ دو ارب کی آبادی کی مکمل تباہی کا تصور ہی آدمی کو کپکپا دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں امریکہ، برطانیہ، روس جنگ نہیں چاہتیں، لیکن امن بھی ایسا ہو جو ہتھیاروں کے سوداگر کا کاروبار نہ روکے۔ امریکہ اور یورپ آج بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی بھارت میں مجموعی سرمایہ کاری پونے دو سو ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ وہ بھارت کو جنگ میں جھونکنے کے حق میں نہیں، لیکن پاکستان پر دباؤ رکھنے کیلئے بھارت کو جنگی طاقت کے طور پر قائم بھی رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک عجیب متضاد پالیسی ہے بظاہر امن، باطن میں مفاد۔
ایک ملک، صرف ایک، جو اس پوری صورتحال سے شاید خوش ہے، وہ اسرائیل ہے۔ اسرائیل کی حکمتِ عملی ہمیشہ یہ رہی ہے کہ وہ کسی مسلمان ملک کو ایٹمی طاقت کے طور پر قبول نہیں کرے گا اور پاکستان وہ واحد اسلامی ملک ہے جسکے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل کو بھارت کی تباہی کا اندیشہ نہیں، اسے صرف پاکستان کی تباہی درکار ہے۔
اب سوال یہ ہے: آگے کیا ہوگا؟ میرے خیال میں، واحد راستہ یہی ہےکہ فوری جنگ بندی، بین الاقوامی ثالثی اور مذاکرات کا آغاز۔ محدود تصادم کبھی محدود نہیں رہتے، ان کے شعلے پورے خطے کو جلا سکتے ہیں۔ اگر دنیا کو بچانا ہے، اگر تہذیب کو زندہ رکھنا ہے، اگر اولادوں کو روشنی دینی ہے، تو پھر پاکستان اور بھارت کو دشمنی کے اس دائرے سے نکل کر دو انسانوں کی طرح بیٹھنا ہو گا، اس بار نہیں، تو کب؟
یہ تاریخ کے دروازے پر دستک ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون دروازہ کھولتا ہے ہتھیار، یا حکمت۔