• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا تو ایمان ہی اُٹھ گیا ہے... پڑھنے پڑھانے والوں سے، فَر فَر انگریزی بولنے والوں سے، سوٹ پہن کر اپنی ڈگریاں لہرانے والوں سے اور بارُعب کتابیں لکھنے والوں سے۔ ویسے تو اِس زندگی کا کوئی فائدہ نہیں، جتنی بھی جی لو انسان خسارے میں ہی رہے گا، ہاں اتنا ضرور ہے کہ اِس ایک آدھ برس میں بہت سے مغالطے دور ہو گئے، جو شاید نہ دور ہوتے اگر اتنی عُمر نہ لکھی ہوتی۔ ایک غلط فہمی اسرائیل نے رفع کر دی جو مغرب کی نام نہاد اخلاقیات، انسانی حقوق اور آزادی اظہار سے متعلق تھی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے، دیکھتے ہی دیکھتے، اسرائیل نے غزہ کو ملیامیٹ کرکے اسے کنسنٹریشن کیمپ میں بدل دیا ہے اور پوری مغربی دنیا اُس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے۔ ننھے ننھے معصوم بچوں کی لاشوں پر اپنے بوٹ رکھ کر یہ ’مہذب‘ لوگ جام پہ جام لُنڈھا رہے ہیں اور اِن کے چہروں پر بے شرمی عیاں ہے۔ دوسری غلط فہمی بھارت نے دور کر دی اور وہ یہ تھی کہ بھارت میں ہم سے زیادہ پڑھے لکھے اور دانشور ٹائپ لوگ ہیں جو جنگ نہیں امن چاہتے ہیں۔ لیکن یہ سب ڈھکوسلہ تھا۔ آج ششی تھرور سے لے کر اداکارہ کاجل تک، تمام بھارتیوں کی خواہش ہے کہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے، ذرا ششی تھرور کی سُن لیں، موصوف نے ایکس پر لکھا: ”آج مجھے اپنے ملک پر فخر ہے، جے ہند۔‘‘ اِس کا شاندار جواب قانون دان اور ایکٹوسٹ جلیلہ حیدر نے دیا: ’’ذرا اِن نام نہاد دانشوروں کا حال دیکھیے جو خود کو نوآبادیاتی نظام کا ناقد کہتے ہیں، کیسے عورتوں اور بچوں کے قتل کا جواز فراہم کر رہے ہیں اور وہ بھی محض اِس وجہ سے کہ وہ حملہ آور کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آنجناب کی اگلی کتاب کا عنوان ہوگا ’My War mongering: A View from the Global South and the Third World Perspective۔‘ جن لوگوں کو یہ طنز سمجھ نہیں آیا اُن کی آسانی کیلئے عرض ہے کہ ششی تھرور The Inglorious Empire اور An Era of Darkness جیسی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں انہوں نے برطانوی راج پر شدید تنقید کی اور بتایا کہ کیسے انگریز ہندوستان کی دولت لُوٹ کر برطانیہ لے گئے، انگریزوں کو اِس بات پر شرمندہ ہونا چاہیے اور ہندوستانیوں سے معافی مانگنی چاہیے۔ مسٹر تھرور نہایت اعلیٰ مقرر ہیں اور بے حد لچھے دار گفتگو کرتے ہیں، انگریزی ایسی بولتے ہیں کہ انگریز دانتوں تلے انگلیاں دبا لیتے ہیں اور نوآبادیاتی نظام کی لوٹ مار سے متعلق ایسے حقائق بیان کرتے ہیں کہ بندہ حیران پریشان ہو جاتا ہے۔ مگر اِس ششی تھرور کا بُت بھی آج گِر گیا۔ یہی حال ہے جاوید اختر کا ہے، موصوف کی شاعری سُن لو، باتیں سُن لو، دلیلیں سُن لو، بات بات پر عقل کی دہائی دیتے ہیں لیکن جب ذکر پاکستان کا ہو تو نفرت کی آگ میں ایسے سلگتے ہیں کہ انہیں نظر آنا بند ہو جاتا ہے، فرماتے ہیں کہ انڈیا میں تو پاکستانی فنکاروں اور شاعروں کی بہت پذیرائی کی جاتی رہی ہے مگر پاکستان میں بھارتیوں کی عزت نہیں کی جاتی۔ جاوید اختر صاحب شاید بھول گئے کہ جب وہ لاہور آئے تھے تو یہاں اُن کا کیسا شاندار استقبال ہوا تھا اور اُن کی نفرت آمیز گفتگو کے باوجود اُن سے بدتمیزی کرنا تو دور کی بات کسی نے اُن کی عزت میں کمی نہیں کی تھی۔ اور وہ تو جاوید اختر تھے، ایک ماہ پہلے کوئی دو ٹکے کا انڈین پاکستان آیا ہوا تھا، ہم نے تو اسے بھی سر پر بٹھا لیا تھا۔ ایک مسئلہ ہمارے ساتھ بھی ہے، ہم نے خود ملامتی اِس قدر کی ہے کہ اپنی ہر بات غلط اور باقی دنیا کی تمام باتیں ٹھیک لگتی ہیں۔ تیسرے درجے کی ایک پاکستانی اداکارہ ہے (تعلق اُن کا جاوید اختر کے چرنوں میں بیٹھنے والے ٹولے سے ہے)، اگلے روز اُن کا ویڈیو کلپ نظر سے گزرا جس میں وہ خطاب فرماتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ ہمارا تو کوئی کلچر ہی نہیں ہے، ہم یہ ہیں ہم وہ ہیں۔ نہ جانے یہ لوگ اِس قدر احساس کمتری کا شکار کیوں ہیں! ایک اور شکست خوردہ ذہنیت کا مالک اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ بھارت سے ہم پنگا ہی کیوں لیتے ہیں۔ گویا بھارت دودھ کا دھلا ہے، ساری خرابی ہم میں ہے۔ہمارے ایک سفارت کار دوست ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ بھارت میں تعینات تھے تو اُس وقت کسی بھارتی لکھاری کی کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی جس میں انہیں شرکت کا موقع ملا۔ کتاب کا موضوع پاک بھارت تعلقات تھا اور لکھاری معقول آدمی تھا جس کا ماننا تھا کہ پاکستان اور انڈیا کو باہمی احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے تعلقات بہتر بنانے چاہئیں۔ تقریب میں انڈین سامعین نے لکھاری سے سوال کیے کہ اگر پاکستان اتنا ہی اچھا ہے تو ہم اسے بھارت میں ضم کیوں نہیں کر لیتے، جس پر لکھاری نے جواب دیا کہ نہیں پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ اِس جواب پر حاضرین بہت جز بز ہوئے۔ ایک اور صاحب نے پوچھا کہ کیوں نہ پاکستان پر حملہ کرکے اُس پر قبضہ کر لیا جائے جس پر لکھاری نے وہی جواب دیا کہ دنیا میں ہمسائے امن و امان سے رہ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔ اِس پر لوگوں نے بہت برا سا منہ بنایا۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ انڈیا کی نظر میں اگر پاکستان امن چاہتا ہے تو اُسے اکھنڈ بھارت کا حصہ بنا لینا چاہیے اور اگر پاکستان انڈیا کی بالا دستی قبول نہ کرے اور جواب میں آنکھیں دکھائے تو پھراُس پر حملہ کرکے صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہیے۔ یہ ہے وہ لینز جس سے انڈیا ہمیں دیکھتا ہے۔ سوال اب یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات نارمل کیسے ہو سکتے ہیں؟ اِس وقت تو یہ بات نا ممکن لگتی ہے۔ البتہ اِس نا ممکن کو ممکن بنانے کے لیے ضروری ہے کہ بھارت کو یہ احساس ہو کہ پاکستان سے تعلقات بگاڑنے کی قیمت نارمل تعلقات رکھنے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، صرف یہی زبان بھارت کو سمجھ آئے گی۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ پاکستان بھارت کا مطیع ہو جائے اور بھوٹان یا نیپال بن جائے تو اُس صورت میں بھارتیوں کے دلوں میں پاکستانیوں کے لیے محبت کے جذبات جاگ اٹھیں گے تو ایسا سوچنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے (نہ جانے کیوں مجھے لگ رہا ہے کہ یہاں یہ محاورہ بَر مَحَل نہیں ہے)۔ اب یہ تعلقات اسی وقت نارمل ہوں گے جب بھارت سرکار کو تعلقات خراب ہونے کی قیمت چکانا مشکل ہو جائے گی۔ یہی ایک صورت ہے۔ ورنہ ہماری زندگی میں تو یہ معجزہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ کالم کی دُم: جاوید اختر کی لاہور یاترا کے موقع پر جو ٹولہ جاوید صاحب کے چرنوں میں بیٹھ کر سیلفیاں لے رہا تھا اُس ٹولے سے درخواست ہے کہ انڈیا کی مذمت کر دیں، انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔

تازہ ترین