(محمد اظہار الحق)
مدوّن و مرتب: عرفان جاوید
عرفان جاوید، ممتاز ادیب، محقق و دانش وَر ہی نہیں، اپنی اختراعی سوچ، جدّت وندرت کاری، منفرد اندازِ نگارش کے سبب قارئینِ جنگ کے محبوب تخلیق کار بھی ہیں اور اِس مرتبہ بھی اُن کی جولانیٔ طبع، سعیٔ پیہم کا حاصل کافی اچھوتا سا ہے کہ اِس بار تو وہ اُردو افسانے کا گویا عِطر کشید کر لائے ہیں۔
مطلب، ہمارے اِس نئے سلسلے ’’نئی کہانی، نیا فسانہ‘‘ کے لیے، وہ اپنے گزشتہ چند برسوں کے وسیع مطالعے اور عمیق تفکّر کے بعد اکیسویں صدی میں لکھے گئے بہترین اُردو افسانوں کا ایک انتخاب پیش کرنے جا رہے ہیں اور یہ انتخاب گزشتہ چوبیس برسوں میں صرف پاکستان میں تخلیق کردہ کہانیوں ہی تک محدود نہیں، اِس کا دائرہ بھارت اور دیگر ممالک میں تحریر کی گئی اُردو کہانیوں تک وسیع ہے۔
یوں کہیے، کہانی کے شائقین کے سامنے بالعموم اور اُردو کہانی کے عشّاق کے سامنے بالخصوص ایک خوانِ خوش ذائقہ چُنا، ایک گُل دستۂ رنگ و بُو سجایا جارہا ہے۔ نیز، سونے پر سہاگا یہ کہ ہر افسانے کے ساتھ، افسانہ نگار کا مختصر تعارف بھی پیش کیا جائے گا۔ یعنی ’’چُپڑی اور دو دو…‘‘ تو لیجیے، ملاحظہ فرمائیے، محمّد اظہار الحق کا تحریر کردہ اِس سلسلے کا پہلا افسانہ ’’میری وفات‘‘۔
اور ہاں، ہمیشہ کی طرح ہمیں ہمارے اس نئے سلسلےسے متعلق اپنی قیمتی آراء سے آگاہ کرنا ہرگز مت بھولیے گا۔
(ایڈیٹر، سنڈے میگزین)
محمّد اظہارالحق، صاحبِ طرز ادیب، شاعر، کالم نگار اور محقّق۔ قیام پاکستان کے عین چھے ماہ بعد اِس عالمِ آب و گِل میں آمد، شاعری کی کتاب ’’دیوارِ آب‘‘ کو 1982ء میں آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
بعدازاں، کئی اعزازات بہ شمول صدارتی تمغۂ حُسنِ کارکردگی اُن کےنام ہوئے، سرکاری ملازمت وظیفۂ روزگار اور تفکّر و تدبر دستورِ حیات ٹھہرے۔ کالم نگاری میں جداگانہ اسلوب اختیارکیا، مقصودِ اظہارِ مدعا رائے سازی تک محدود نہ رہا، دماغ کے ساتھ دل کو ہم آہنگ کیا اور عمدہ نثرپارے خلق کیے۔
ایک شخص کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوکر اپنی مانوس دنیا میں چلے جانے کی پیش کش کی گئی، البتہ موقع دیا گیا کہ وہ نادیدہ رہتے ہوئے اپنی دنیا کو دیکھ، جانچ آئے اور اپنے فیصلے سے آگاہ کردے، آیا وہ دوبارہ زندہ ہونا چاہے گا یا قدرت کے حُکم کے سامنے سرِتسلیم خم کرے گا۔ اُس نے کیا فیصلہ کیا؟ ’’میری وفات‘‘ اُسی کی خرد افروز رُوداد ہے۔ واضح رہے۔ یہ فکر انگیز و خیال آفریں افسانہ کالم کی شکل میں لکھا گیا تھا۔
سرما کی ایک یخ زدہ ٹھٹھرتی شام تھی، جب میری وفات ہوئی۔
اُس دن صبح سے بارش ہورہی تھی۔ بیوی صبح ڈاکٹر کےپاس لےکرگئی۔ ڈاکٹر نے دوائیں تبدیل کیں، مگر خلافِ معمول خاموش رہا۔ مجھ سے کوئی بات کی، نہ میری بیوی سے۔ بس خالی خالی آنکھوں سے ہم دونوں کو دیکھتا رہا۔ دوپہر تک حالت اور بگڑ گئی۔ جو بیٹا پاکستان میں تھا، وہ ایک تربیتی کورس کے سلسلے میں بیرونِ ملک تھا۔ چھوٹی بیٹی اور اُس کا میاں دونوں یونیسف کے سروے کے لیے کراچی ڈیوٹی پر تھے۔
لاہور والی بیٹی کو بھی مَیں نے فون نہ کرنےدیا کہ اُس کا میاں بےحد مصروف ہے اور بچّوں کی وجہ سے خُود اُس کا آنا بھی مشکل ہے۔ رہے دو لڑکے، جو بیرون مُلک ہیں، اُنہیں پریشان کرنے کی کوئی تُک نہ تھی۔ یوں صرف مَیں اور میری بیوی ہی گھر پر تھے اور ایک ملازم، جو شام ڈھلے اپنے گھر چلا جاتا تھا۔
عصر ڈھلنے لگی، تو مجھے محسوس ہوا کہ نقاہت کے مارے بات کرنا مشکل ہورہا ہے۔ مَیں نے اپنی پرانی ڈائری نکالی، بیوی کو پاس بٹھا کررقوم کی تفصیل بتانے لگا، جومَیں نے وصول کرنا اوردوسروں کو ادا کرنا تھیں۔ بیوی نے ہلکا سا احتجاج کیا۔ ’’یہ تو آپ کی پرانی عادت ہے۔
ذرا بھی کچھ ہو تو ڈائری نکال کر بیٹھ جاتے ہیں۔‘‘ مگر اُس کے احتجاج میں پہلے والا یقین نہیں تھا۔ پھر سورج غروب ہوگیا۔ تاریکی اور سردی دونوں بڑھنے لگیں۔ بیوی میرےلیے سُوپ بنانے کچن میں گئی۔ اُس کی غیرحاضری میں مَیں نے چند اکھڑی اکھڑی سانسیں لیں اور غروب ہوگیا۔
مجھے محسوس ہورہا تھا کہ مَیں آہستہ آہستہ اپنے جسم سے باہرنکل رہا ہوں۔ پھر جیسے میں ہوا میں تیرنے لگا اور چھت کے قریب جاپہنچا۔ بیوی سُوپ لے کر آئی، تو مَیں دیکھ رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے اُس پر سکتہ طاری ہوا اور پھر دھاڑیں مار کر رونے لگی۔ مَیں نے بولنے کی کوشش کی۔ یہ عجیب بات تھی کہ مَیں سب کچھ دیکھ رہا تھا، مگر بول نہیں سکتا تھا۔
لاہور والی بیٹی رات کے پچھلے پہر پہنچ گئی۔ کراچی سے بھی چھوٹی بیٹی اور میاں صبح کی پہلی فلائیٹ سے پہنچ گئے۔ بیٹے تینوں بیرونِ مُلک تھے، وہ جلد سے جلد بھی آتے، تو دو دن لگ جانے تھے۔ دوسرے دن عصر کے بعد میری تدفین کردی گئی۔ شاعر، ادیب، صحافی، سول سرونٹس سب کی نمائندگی اچھی خاصی تھی۔ گاؤں سے بھی تقریباً سبھی آگئے تھے۔ ننھیال والے گاؤں سے ماموں زاد بھائی بھی تینوں موجود تھے۔
لحد میں میرے اوپر جو سلیں رکھی گئی تھیں مٹّی ان سے گزر کر اندر آگئی تھی۔ بائیں پاؤں کا انگوٹھا، جو آرتھرائٹس کا شکار تھا، مٹی کے بوجھ سے درد کررہا تھا۔ پھر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ شاید فرشتے آن پہنچے تھے۔ اُسی کیفیت میں سوال جواب کا سیشن ہوا۔ یہ کیفیت ختم ہوئی۔ محسوس ہورہا تھا کہ چند لمحے ہی گزرے ہیں، مگر فرشتوں نے بتایا کہ پانچ برس ہوچُکےہیں۔ پھر فرشتوں نے ایک عجیب پیش کش کی۔ ’’ہم تمھیں کچھ عرصے کے لیے واپس بھیج رہے ہیں۔
تم وہاں، دنیا میں، کسی کو نظر نہیں آؤگے، گھوم پھر کر، اپنے پیاروں کو دیکھ لو، پھر اگر تم نے کہا تو تمھیں دوبارہ نارمل زندگی دے دیں گے۔ ورنہ واپس آجانا۔‘‘ مَیں نے یہ پیش کش غنیمت سمجھی اور فوراً ہاں کردی۔ یہ الگ بات کہ فیصلہ پہلے ہی ہوچُکا تھا۔ پھر ایک مدہوشی کی حالت چھا گئی۔ آنکھ کُھلی تو مَیں اپنی گلی میں تھا۔
آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا اپنے گھر کی جانب چلا۔ راستے میں کرنل صاحب کو دیکھا۔ گھر سے باہر کھڑے تھے۔ اتنے زیادہ بوڑھے لگ رہے تھے۔ خواجہ صاحب بیگم کے ساتھ واک کرنے نکل رہے تھے۔ اپنے مکان کے گیٹ پر پہنچ کر مَیں ٹھٹھک گیا۔ میرے نام کی تختی غائب تھی۔ پورچ میں گاڑی بھی نہیں کھڑی تھی۔ وفات سے چند ہفتے پہلے تازہ ترین ماڈل کی خریدی تھی۔ اُس کا سن روف بھی تھا اور چمڑے کی اوریجنل سیٹیں تھیں۔ دھچکا سا لگا۔ گاڑی کہاں ہوسکتی ہے؟ بچّوں کےپاس تو اپنی اپنی گاڑیاں موجود تھیں۔ تو پھر میری بیوی، جو اب بیوہ تھی، کیا گاڑی کے بغیر تھی؟
دروازہ کُھلا تھا۔ مَیں سب سے پہلے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اپنی لائبریری میں گیا۔ یہ کیا؟ کتابیں تھیں، نہ الماریاں۔ رائٹنگ ٹیبل، اُس کے ساتھ والی منہگی کرسی، صوفہ، اعلیٰ مرکزی ملازمت کے دوران جو شیلڈز اور یادگاریں مجھے ملی تھیں اور الماریوں کے اوپر سجا کر رکھی ہوئی تھیں۔ بےشمار فوٹو البم، کچھ بھی تو وہاں نہ تھا۔
مجھے فارسی کی قیمتی، ایران سے چَھپی ہوئی کتابیں یاد آئیں، دادا جان کے چھوڑے ہوئے قیمتی قلمی نسخے، گلستانِ سعدی کا نادر نسخہ، جو سونے کے پانی سے لکھا ہوا تھا اور دھوپ میں اور چھاؤں میں الگ الگ رنگ کی لکھائی دِکھاتا تھا، داداجان اور والد صاحب کی ذاتی ڈائریاں سب غائب تھیں۔ کمرا یوں لگتا تھا، گودام کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔ سامنے والی پوری دیوار پر جو تصویر پندرہ ہزار روپے سے لگوائی تھی، جگہ جگہ سے پھٹ چُکی تھی۔
فاؤنٹین پینز کا بڑا ذخیرہ تھا میرے پاس، پارکر، شیفر، کراس وہ بھی دراز میں نہیں تھا۔ مَیں پژمردہ ہوکر لائبریری سے باہر نکل آیا۔ بالائی منزل کا یہ وسیع و عریض لاؤنج بھائیں بھائیں کررہا تھا۔ یہ کیا؟ اچانک مجھےیاد آیا، میں نےچکوال سے رنگین پایوں والے، سُوت سے بُنے ہوئے، چار پلنگ منگوا کر اِس لاؤنج میں رکھے تھے۔ شاعر برادری کوبہت پسند آئے تھے، وہ غائب تھے۔
نیچے گراؤنڈ فلور پرآیا، بیوی اکیلی کچن میں کچھ کررہی تھی۔ مَیں نے اُسے دیکھا۔ پانچ برسوں میں اتنی تبدیل ہوگئی تھی۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کیسے پوچھوں کہ گُھٹنوں کے درد کا کیاحال ہے؟ ایڑیوں میں بھی درد محسوس ہوتا تھا۔ دوائیں باقاعدگی سے میسّر آرہی تھیں یا نہیں؟ مَیں اُس کے لیے باقاعدگی سے پھل لاتا تھا۔ نہ جانے بچّے کیا سلوک کررہے ہیں۔ مگر مَیں تو بول نہ سکتا تھا، نہ ہی وہ مجھے دیکھ سکتی تھی۔
اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔ بیوی بہت دیر باتیں کرتی رہی۔ جو کچھ اس طویل گفتگو سے مَیں سمجھا، یہ تھا کہ بچّے اس مکان کو فروخت کرنا چاہتے تھے۔ ماں نے مخالفت کی کہ وہ کہاں رہے گی۔ بچّے مصر تھے کہ ہمارے پاس رہیں گی۔ بیوی کو میری نصیحت یاد تھی کہ ڈیرہ اپنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ مگر وہ بچّوں کی ضد کے سامنے ہتھیارڈال رہی تھی۔ گاڑی کا معلوم ہوا کہ بیچی جا چُکی تھی۔ بیوی نے خُود ہی بیچنے کے لیے کہا تھا کہ اُسے ایک چھوٹی آلٹو ہی کافی ہوگی۔
اتنے میں ملازم لاؤنج میں داخل ہوا۔ یہ نوجوان اب ادھیڑ عُمر لگ رہا تھا۔ میں اُس کا لباس دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ اُس نے میری قیمتی برانڈڈ قمیص، جو ہانگ کانگ سے خریدی تھی، پہنی ہوئی تھی۔ نیچے وہ پتلون تھی، جس کا فیبرک مَیں نے اٹلی سے لیا تھا۔ اچھا، تو میرے بیش بہا ملبوسات ملازموں میں تقسیم ہوچُکے تھے۔
مَیں ایک سال، لوگوں کی نگاہوں سے غائب رہ کر، سب کو دیکھتا رہا۔ ایک ایک بیٹے، بیٹی کے گھر جاکر اُن کی باتیں سُنیں۔ کبھی کبھار ہی ابا مرحوم کا یعنی میرا ذکر آتا۔ وہ بھی سرسری سا۔ ہاں۔ زینب، میری نواسی، اکثر نانا ابو کا تذکرہ کرتی۔ ایک دن ماں سے کہہ رہی تھی۔ ’’اماں یہ بانس کی میز، کرسی نانا ابو لائے تھے۔ جب مَیں چھوٹی سی تھی۔ اِسے پھینکنا نہیں‘‘ ماں نےجواب میں کہا، ’’جلدی سے کپڑے بدل کر کھانا کھاؤ، پھر مجھے میری سہیلی کے گھر ڈراپ کرو‘‘۔
مَیں شاعروں، ادیبوں کے اجتماعات اور نشستوں میں گیا۔ کہیں اپنا ذکر نہ سُنا۔ وہ جو بات بات پر مجھے جدید غزل کا ٹرینڈ سیٹر کہا کرتے تھے، جیسے بھول ہی تو چُکے تھے۔ اب اُن کے ملازموں نے میری کتابیں ڈسپلے سے ہٹا دی تھیں۔ ایک چکر مَیں نے قبرستان کا لگایا۔ میری قبر کا بُرا حال تھا۔ گھاس اُگی تھی۔ کتبہ پرندوں کی بِیٹ سے اٹا تھا۔ ساتھ والی قبروں کی حالت بھی زیادہ بہتر نہ تھی۔
ایک سال کے جائزے کے بعد مَیں اِس نتیجے پر پہنچا کہ میری موت سے دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ رمق بھر بھی نہیں۔ بیوی یاد کرلیتی تھی تاہم بچّے، پوتے، نواسے، پوتیاں سب بھول چُکے تھے۔ ادبی حلقوں کے لیے مَیں اب تاریخ کا حصّہ بن چُکا تھا۔ جن بڑے بڑے محکموں اور اداروں کا مَیں سربراہ رہا تھا، وہاں ناموں والے پرانے بورڈ تک ہٹ چُکے تھے اور نئے بورڈ بھی مسلسل بھرتے جارہے تھے۔ دنیا رواں دواں تھی۔ کہیں بھی میری ضرورت نہ تھی۔ گھر میں، نہ باہر۔
پھر تہذیبی، معاشرتی اور اقتصادی تبدیلیاں تیزی سے آرہی تھیں اور آئے جارہی تھیں، ہوائی جہازوں کی رفتار چار گُنا بڑھ چُکی تھی۔ دنیا کا سارا نظام سمٹ کر موبائل فون کے اندر آچُکا تھا۔ میں ان جدید ترین موبائلوں کا استعمال ہی نہ جانتا تھا۔
فرض کیجیے، مَیں فرشتوں سے التماس کر کے دوبارہ دنیا میں نارمل زندگی گزارنے آ بھی جاتا، تو کہیں خوش آمدید نہ کہا جاتا۔ بچّے پریشان ہوجاتے۔ اُن کی زندگیوں کے اپنے منصوبے اور پروگرام تھے، جن میں اب میری گنجائش کہیں نہ تھی۔ ہوسکتا ہے، بیوی بھی کہہ دے کہ تم نے واپس آکر میرے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔
مکان بِک چُکا، مَیں ایک تو کسی بچّے کے پاس رہ لیتی، دو کو اب وہ کہاں سنبھالتے پھریں گے۔ دوست بھی تھوڑے ہی اب باقی بچے تھے اور وہ بھی بیمار۔ چل چلاؤ کے مراحل کا سامنا کررہے تھے۔ معیں واپس آتا تو دنیا میں مکمل طور پر اَن فِٹ ہوتا۔ نئے لباس میں پیوند کی طرح۔ جدید بستی میں پرانے مقبرے کی مانند!
مَیں نے فرشتے سے رابطہ کیا اور اپنی آخری چوائس بتا دی۔ مَیں واپس قبر میں جانا چاہتا ہوں۔ فرشتہ مُسکرایا۔ اُس کا کمنٹ بہت مختصر تھا۔ ’’ہر انسان یہی سمجھتا ہے کہ اُس کے بعد جوخلا پیدا ہوگا، کبھی بَھرا نہیں جاسکے گا، مگروہ یہ نہیں جانتاکہ خلا تو پیدا ہی نہیں ہوتا!‘‘