پاکستان میں سیاست ایک ایسا میدان ہے جہاں صنفی امتیاز ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ خواتین کو نہ صرف سیاست میں آگے بڑھنے کیلئے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا بلکہ انہیں خود کو ثابت کرنے کیلئے بھی کئی گنا زیادہ محنت کرنا پڑی۔ ایسے میں کچھ خواتین نے نہ صرف ان رکاوٹوں کو عبور کیا بلکہ خود کو اس سطح پر منوایا جہاں ان کا نام کسی وضاحت کا محتاج نہیں رہا۔ فریال تالپور ان ہی باہمت خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے نہ صرف سندھ کی خواتین کیلئے ایک علامتی حیثیت حاصل کی بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کو اندرونی طور پر مستحکم رکھنے میں بھی ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔
فریال تالپور کا تعلق ایک ایسے سیاسی گھرانے سے ہے جس نے پاکستان کی سیاست میں گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ وہ موجودہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی ہمشیرہ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی قریبی ساتھی رہی ہیں۔ مگر ان کی اپنی شناخت صرف رشتہ داری کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک تجربہ کار، سنجیدہ اور مدبر سیاسی رہنما کے طور پر بنی ہے۔ انہوں نے عملی سیاست کا آغاز بلدیاتی سطح سے کیا اور پھر بتدریج خود کو ایک قومی سطح کی سیاستدان کے طور پر منوایا۔ ان کی شخصیت میں سنجیدگی، متانت اور بردباری ہمیشہ نمایاں رہی ہے۔
فریال تالپور نے سندھ میں خواتین کی سیاسی شمولیت کو جس انداز میں فروغ دیا، وہ قابلِ تحسین ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں خواتین کو عموماً صرف ووٹر سمجھا جاتا ہے، انہوں نے یہ تصور بدلا کہ خواتین صرف ووٹ ڈالنے والی نہیں بلکہ فیصلہ سازی اور قیادت کی اہل بھی ہیں۔ ان کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی خواتین ونگ نے غیر معمولی ترقی کی۔ انہوں نے دیہی علاقوں تک رسائی حاصل کی، مقامی مسائل کو سنا، اور خواتین کو سیاست میں شمولیت کیلئے نہ صرف حوصلہ دیا بلکہ مواقع بھی فراہم کیے۔ فریال تالپور کا یہ ماننا رہا ہے کہ اگر کوئی جماعت عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے تو اسے نصف آبادی، یعنی خواتین، کو نظر انداز کرنے کا کوئی حق نہیں۔
فریال تالپور کا کردار صرف خواتین کیلئے تحریک کا باعث نہیں بلکہ وہ خود پارٹی کے اندر ایک پختہ منتظم کے طور پر بھی ابھری ہیں۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب موجودہ صدر آصف علی زرداری مختلف قانونی معاملات میں مصروف رہے، فریال تالپور نے پارٹی کی تنظیمی ذمہ داریاں سنبھالیں اور یہ ثابت کیا کہ وہ پارٹی کو نہ صرف چلانے بلکہ اسے اندرونی بحرانوں سے نکالنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ انہوں نے پارٹی کے ناراض کارکنوں کو منایا، مختلف دھڑوں کے درمیان پل کا کردار ادا کیا اور سندھ سمیت ملک بھر میں پارٹی کو فعال رکھنے کیلئے مسلسل کوششیں جاری رکھیں۔ان کی خاموش مگر موثر قیادت کی ایک بڑی مثال 2013 ءاور 2018ءکے انتخابات کے درمیانی عرصے میں دیکھی جا سکتی ہے، جب پیپلز پارٹی کو ایک منظم حکمت عملی کی ضرورت تھی۔ انہوں نے پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کیا، خواتین، نوجوانوں اور اقلیتوں کو نمایاں مقام دیا، اور پارٹی کو صرف ایک خاندان یا فرد کی جماعت کے بجائے ایک ادارے کے طور پر مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی شخصیت میں جو ٹھہراؤ اور متانت ہے، وہ پارٹی میں توازن قائم رکھنے کا ذریعہ بنی۔ وہ کبھی بھی میڈیا کی چکا چوند میں نہیں آئیں، مگر پارٹی کے ہر بڑے فیصلے میں ان کی موجودگی اور مشاورت اہم رہی۔
ان کے کردار کو اس لیے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انہوں نے ہمیشہ اداروں کے احترام اور آئینی حدود کے اندر رہ کر سیاست کی ہے۔ وہ جارحانہ سیاست کی قائل نہیں، بلکہ مفاہمت، مشاورت اور مذاکرات کی سیاست کی داعی ہیں۔ ان کی اسی حکمت عملی کی بدولت پیپلز پارٹی نے کئی نازک مواقع پر استحکام حاصل کیا۔ ان کا یہ رویہ پارٹی کے نوجوان رہنماؤں کیلئے ایک نمونہ ہے کہ سیاست میں جذبات سے زیادہ حکمتِ عملی اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستانی سیاست میں جہاں اکثر خواتین کو "شو پیس" بنا کر رکھا جاتا ہے، وہاں فریال تالپور نے عملی سیاست کے میدان میں اپنی جگہ خود بنائی۔ ان کی قابلیت اور دور اندیشی کا اعتراف نہ صرف پارٹی کے اندر بلکہ سیاسی مخالفین کی جانب سے بھی کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی پیپلز پارٹی کو داخلی نظم و نسق کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے، تو نظریں ان کی طرف اٹھتی ہیں۔ وہ اپنے سادہ اور باوقار طرزِ زندگی سے بھی یہ پیغام دیتی ہیں کہ سیاست میں نمود و نمائش کی بجائے کام اور خدمت اصل پہچان ہونی چاہیے۔
مستقبل میں جب پاکستانی سیاست کا جائزہ لیا جائے گا، تو فریال تالپور کا کردار ایک خاموش مگر مؤثر طاقت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے جس انداز سے پارٹی کو تنظیمی بنیادوں پر مستحکم کیا، خواتین کو بااختیار بنایا، اور مفاہمتی سیاست کو فروغ دیا، وہ انہیں نہ صرف پیپلز پارٹی کیلئے بلکہ مجموعی طور پر پاکستانی جمہوریت کیلئے ایک قیمتی سرمایہ بناتا ہے۔
ان کے کردار کو سندھ کی سیاسی تاریخ میں ایک مثال کے طور پر دیکھا جائے گا کہ کیسے ایک خاتون بغیر کسی شور شرابے کے، بغیر جذباتی نعروں کے، اپنے عمل اور تدبر سے ایک بڑی سیاسی جماعت کی بنیادوں کو مضبوط بنا سکتی ہے۔ فریال تالپور کا سفر ان تمام خواتین کیلئے مشعلِ راہ ہے جو سیاست میں آنا چاہتی ہیں، مگر معاشرتی دباؤ یا رکاوٹوں کے باعث پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔ ان کی زندگی اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ اگر ارادہ پختہ ہو، نیت صاف ہو اور راستہ درست ہو، تو کوئی بھی خاتون سیاست میں کامیاب ہو سکتی ہے۔