• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ظاہر ہے کہ مسلمانی عشق رسول ﷺ کے بغیر مکمل نہیں ہوتی اور یہی وہ محور ہے جس کے ارد گرد ہماری زندگی اپنا سفر طے کرتی ہے۔ ہم مسلمان عشق رسولﷺ کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اکثر اوقات یہ دعویٰ محض زبانی اور آنکھوں کو عقیدت کے آنسوئوں سے تر کرنے کی حد تک ہوتا ہے ،اس کا عکس ہمارے اعمال اور رویوں میں نہیں ملتا۔ اسوہ حسنہ ﷺ ہمارے لئے نمونہ ، رول ماڈل اور آئیڈیل ہے۔ عملی طور پر ہم جس قدر اس کے قریب ہوں گے اسی قدر سچے اور پکے مسلمان تصور ہوں گے۔ یہ ہماری بدقسمتی اور محرومی ہے کہ ہمارے رویے اور اعمال پر قبائلی و مقامی روایات، علاقائی کلچر اور اقدار ا ور اکثر اوقات غیر اسلامی روایات کا رنگ غالب نظر آتا ہے جبکہ ہم مسلمانی کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور ذکر رسولﷺ پر انگلیوں کو چوم کر آنکھوں سے بھی لگاتے ہیں۔ ہندو پاکستان کے مسلمانوں کی رسومات، رویوں اور اقدار پر ہندو کلچر کا اثر ابھی تک نظر آتا ہے جو بنیادی طور پر مقامی اور علاقائی رسومات اور سوچ کا روپ ڈھال چکا ہے۔ کسی لڑکی کا شادی کے حوالے سے پسند کے اظہار کو گناہ سمجھنا ،اسے بہت بڑی برائی سمجھنا اور اسے خاندانی غیرت کا مسئلہ بنا کر قتل کردینا بھی ایک ایسا ہی رجحان ،فعل اور سوچ ہے جس کا اسلام سے تعلق ہے نہ اسوہ حسنہﷺ سے۔ دراصل یہ شاخسانہ ہے مقامی کلچر، اقدار اور سوچ کا جس نے عزت ا ور غیرت کے اپنے معیار اور پیمانے طے کررکھے ہیں اور عام طور پر ان پر ہندو ازم یا صدیوں پرانے غیر اسلامی کلچر کا غلبہ نظر آتا ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ ہماری شادی بیاہ کی رسمیں اور دوسری بہت سی معاشرتی رسومات پر غیر اسلامی اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ صدیوں سے مسلمان ہونے کے باوجود ہم ان رسومات، معاشرتی اقدار ا ور عزت کے پیمانوں سے نجات کیوں حاصل نہیں کرسکے؟۔ عورت بھی نکاح کے لئے پیغام بھجوا سکتی ہے اور مرد بھی لیکن اسے مسترد کئے جانے کی صورت میں مشتعل ہو کر اور اسے اپنی توہین سمجھ کر انتقام پہ اتر آنا گھٹیا سوچ اور غیر اسلامی فعل ہے جس سے عشق رسولﷺ اور حُب اسلام کی نفی ہوتی ہے۔ بزرگوں اور خاندانوں کو لڑکی اور لڑکے کی طرف سے شامل کرنا شادی کے تصور اور خانہ آبادی کے ادارے کو مضبوط بناتا ہے اور یہ ایک طرح سے دولہا اور دلہن کے درمیان کنٹریکٹ کے علاوہ دو خاندانوں کے درمیان بھی کنٹریکٹ بن جاتا ہے جس سے شادی کو حددرجہ تقویت ملتی ہے اور تقدس حاصل ہوجاتا ہے۔
انبیاء کرام اللہ سبحانہ تعالیٰ کے مقرب اور قریبی ہوتے ہیں، ان کا عام لوگوں سے موازنہ نہیں ہوسکتا، ان کا ہر قدم اللہ سبحانہ تعالیٰ کی منظوری اور رضا کا تابع ہوتا ہے۔ ہمارے لئے ہمارے نبی کریم ﷺ کی اسوۂ حسنہ وہ آئیڈیل ہے جس سے ہمیں ہر دم اور ہر قدم پر رہنمائی لینی چاہئے ورنہ مسلمانی کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔
گزشتہ دنوں ہمارے نبی کریمﷺ کی حضرت خدیجتہ الکبریؓ سے نکاح کا ذکر بہت سے کالموں میں ہوتا رہا جو مسلمانوں کے لئے ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس شادی کی راہ حضرت سیدہ خدیختہ الکبریٰ ؓ کے پیغام نے ہموار کی لیکن دوسرے کئی نکاح خود نبی کریمﷺ کے پیغام بھجوانے کے نتیجے پر ہوئے۔ ردائے کبیر میں محترم عمر کبیر علی شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ سیدہ خدیجہؓ آرام فرمارہی تھیں کہ عالم خواب میں دیکھتی ہیں کہ آسمانی آفتاب ان کے گھر اتر آیا ہے اور اس کا نور ان کے گھر سے پھیل رہا ہے۔ یہاں تک کہ مکہ مکرمہ کا کوئی ایسا گھر نہیں جو اس نور سے روشن نہ ہو ا ہو۔ حضرت خدیجہؓ اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل سے تعبیر پوچھنے گئیں جو آسمانی کتابوں کا بڑا عالم تھا۔ ورقہ بن نوفل نے خواب توجہ سے سنا۔ اس کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ اس نے کہا بہت مبارک خواب ہے۔ خدیجہؓ نبی آخر الزماںﷺ تم سے نکاح کریں گے۔ حضرت خدیجہؓ نے حیرت سے پوچھا کیا نبی آخرالزماںﷺ مجھے زوجیت میں لیں گے؟ ان کے ظہور کا زمانہ کون سا ہے؟ ورقہ بن نوفل نے جواب دیا آسمانی کتب کے مطابق ان کے ظہور کا یہی زمانہ ہے۔ یہ سن کر سیدہ ؓ واپس لوٹ گئیں۔ ان کے اندر خوشی کی لہریں اٹھ رہی تھیں وہ تو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں۔ آخر ورقہ بن نوفل کی تعبیر سچ ثابت ہوئی اور حضرت خدیجتہ الکبریٰ ؓ کا نکاح نبی کریمﷺ سے طے پا گیا۔اس سے ثابت ہوا کہ نبی کے ہر فعل میں رضائے الٰہی شامل ہوتی ہے اور نبی رضائے ا لٰہی کے منافی کوئی عمل نہیں فرماتے۔
چنانچہ یہ بات ذہن میں رہے کہ سیدہ حضرت خدیجتہ الکبریٰ ؓ کافی عرصہ قبل یہ خواب دیکھ چکی تھیں اور خواب ان کے ذہن اور شعور میں موجود تھا۔ اپنا تجارتی قافلہ حضور نبی کریمﷺ کے ساتھ شام بھجوانے سے قبل وہ آپؐ کی ’’امین‘‘ ،امانت،دیانت، شرافت، حسن اخلاق اور اعلیٰ سیرت کا ذکر سن چکی تھیں۔ اسی لئے جب ابو طالب نے پوچھا’’خدیجہؓ محمدؐ سے تجارت کرانا پسند کرو گی؟ ‘‘،خدیجہؓ بولیں یہ تو اپنے آدمی ہیں اور وہ بھی امین۔ قافلے میں آپؐ کے ساتھ حضرت خدیجہؓ کاغلام میسرہ بھی شامل تھا۔ قافلہ توقع سے بڑھ کر زیادہ منافع کے ساتھ واپس لوٹا تو حضرت خدیجہؓ بہت خوش ہوئیں جب میسرہ نے حضور نبی کریمﷺ کی سچائی، ایمانداری، مال تجارت کی فکر ا ور حسن اخلاق کے ساتھ ساتھ اپنے چشم دید واقعات سنائے جن میں راہب نسطور اور اس کی پیش گوئی یا خوشخبری بھی شامل تھی تو حضرت خدیجہؓ حدردجہ متاثر ہوئیں۔ پھر وہ جہاں بھی ہوتیں آپؐ کا تذکرہ کرتیں اور گن گاتیں۔ بقول مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری، میسرہ نے آپؐ کے شیریں اخلاق، بلندپایہ کردار، راست گوئی اور امانت دارانہ طور طریق کے متعلق اپنے مشاہدات بیان کئے تو گویا حضرت خدیجہؓ کو اپنا گم گشتہ گوہر مطلوب دستیاب ہوگیا۔ اس حوالے سے مزید تفصیل اگلی قسط میں اِن شاء اللہ۔(جاری ہے)


.
تازہ ترین