• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جہاں پاسپورٹ سے زیادہ قیمت خوابوں کی ہو، وہاں لوگ خود کو بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔بے رحم اسمگلر صرف جسموں کو نہیں، امیدوں، رشتوں اور زندگانی کو اسمگل کرتے ہیں۔یورپ کے ساحل پر بہنے والی لاشیں پانی میں انسانی بےضمیری کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبی ہوتی ہیں۔ہر وہ کشتی جو ترقی یافتہ کے خواب میں روانہ ہوتی ہے، اس میں ایک آدھ جنازہ ضرور ہوتا ہے، ۔یہ کیسا سودا ہے کہ مائیں اپنے بیٹے اور بیٹیاں ایک اجنبی سرزمین کے ہاتھ آس میں بیچ دیتی ہیں کہ 'شاید وہاں زندگی ہے۔سچ یہی ہے اسمگلروں کی جیبوں میں نوٹ نہیں، قوم کے تابوت رکھے ہوتے ہیں،۔انسانی اسمگلنگ انسانیت کے چہرے کا بدترین داغ ہے جوروزبروز سیاہ ہوتا جارہا ہے ۔پچھلے دنوں میں ایف آئی اےلاہور زون میں کسی کام سے گیا تو وہاں ایک شخصیت کسی آدمی کی سفارش کےلئے آئی ہوئی تھی ،ڈائریکٹر انہیں کہہ رہا تھا کہ یہ آدمی جس مجرم کے ساتھ گرفتار ہوا ہے اس کا نام ریڈ بک میں ہے ، اور وہ بھی انسانی اسمگلنگ کے جرم میں ۔ریڈ بک کانام سن کر مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ہم تو کارل مارکس کی کتاب داس کیپٹل کو ریڈ بک کہا کرتے تھے ۔اب پتہ چل چلا کہ ایف آئی اے انتہائی جرائم میں مطلوب ملزمان کے ناموں کی جوفہرست تیار کرتی ہے ۔اسے ریڈ بک کہا جاتا ہے۔

گفتگو کے بعد مجھے احساس ہوا کہ انسانی اسمگلنگ میں معاملہ صرف قانون کا نہیں ، اس میں درد چھپا ہوا ہے ،اس ماں کے آنسوؤں کا درد ، جس کا بیٹا غیر قانونی سفر میں ہمیشہ کےلئے غائب ہو چکا ہے۔مجھے یاد آیا کہ ایک اندازے کے مطابق پچھلے چند برسوں میں پندرہ سو سے زائد پاکستانی نوجوان یورپ کی سرزمین تک پہنچنے کی چاہ میں سمندر کی بےرحم موجوں کی نذر ہو چکے ہیں۔شاید اسی لئے ایف آئی اے یعنی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے لاہور زون نے انسانی اسمگلنگ کے خلاف ایک غیر متزلزل جنگ لڑی ہے۔سینکڑوں چھاپے، ہزاروں مقدمات، لاکھوں کی رقوم کی واپسی، اور سب سے بڑھ کر ، اُن خوابوں کی بازیابی جو غیر قانونی ویزوں، جعلی ایجنٹوں اور جعلی دستاویزات کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔

بجلی چوری کے خلاف بھی ایک محاذ کھولاگیا۔ یہ جرم بظاہر معمولی سا ہے، مگر حقیقت میں پوری قوم کی معیشت کو چاٹ رہا ہے۔بہر حال ہزاروں یونٹ واپس عوام کے خزانے میں لائے گئے۔ جعلی ادویات کے خلاف کریک ڈائون کیے گئے ۔یہ وہ جرم ہے جو جسم کو نہیں روح کو بیمار کرتا ہے، جعل سازی کرنے والی فیکٹریوں کو سیل کیا گیا۔حوالہ ہنڈی پر بھی کاری ضرب لگائی گئی۔ متعدد مجرم گرفتار ہوئے، بڑی مقدار میں نقدی برآمد ہوئی، اور وہ چینل بند کیے گئے جو دشمن قوتوں کی مالی رگیں تھیں،یہ ناپاک دھندہ دیس کے زرِمبادلہ کو نگلتاجارہا تھا ۔مجھے سب سے زیادہ حیرت اُس بات پر ہوئی کہ علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ہزاروں افراد کو غیر قانونی سفر سے روکا گیا۔ ان میں کئی وہ تھے جنہیں بھیجنے والے تو انسان کہلاتے تھے مگر درحقیقت وہ انسانی ضمیر کے سوداگر تھے۔ انہیں روکا گیا، گرفتار کیا گیا، اور انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا۔وہاںبہت اچھی باتیں سنائی دیں ۔لگا کہ ابھی آسمان زمین سے مکمل طور پر مایوس نہیں ہوا۔

گفتگو جاری تھی ۔ معروف دانشور اورپاکستان پیپلز پارٹی کے سینئررہنما آصف ہاشمی تشریف لے آئے ، یقینا اپنے کیسز کے سلسلےمیں آئے ہونگے۔ماضی میں ان کے خلاف بہت سے غلط مقدمات درج کیے گئے ۔ تاہم عدالتوں نے متعدد مواقع پر انہیں بری کیا، جو ان کے حق میں مضبوط دلیل ہے۔843 کنال اراضی منتقلی کیس اور450 پلاٹس الاٹمنٹ کیس دونوں میں عدالت نے انہیں بری کیا اور مقدمے کے فیصلے میں لکھا کہ ملزم نے کوئی جرم نہیں کیا، کیس بے بنیاد اور مفروضوں پر مشتمل ہے۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ کیس ابھی تک مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے ،بلاول بھٹو کوا ن کی طرف توجہ دینا چاہئے ۔ایف آئی اے لاہور زون کی بہت سی کہانیاں میں سے ایک کہانی درج کرتا ہوں ۔صبح کی پہلی کرن ابھی لاہور کی گلیوں میں پوری طرح نہیں پھیلی تھی کہ منظور عرف "منظو ویزہ والا" کی دکان کے شٹر پر دستک ہوئی۔ باہر کھڑا نوجوان فراز ہاتھ میں ایک نیلے رنگ کا لفافہ لیے بےتابی سے آنکھوں میں یورپ کے خواب سجائے کھڑا تھا۔’’بھائی، میری ماں نے زیور بیچ کر پیسے دیے ہیں، بس مجھے اٹلی پہنچا دو۔ وہاں پہنچ کر کچھ بھی کر لوں گا، مزدوری بھی۔ بس یہاں سے نکلنا ہے ‘‘۔منظور نے مسکرا کر لفافہ لیا، وزن تولا، اور کہا، "تین دن بعد پاسپورٹ، ویزہ، اور ٹکٹ۔ تیرا کام پکا۔منظور کا یہ "کاروبارِ خواب" پچھلے سات سال سے چل رہا تھا۔ جعلی دستاویزات بنانا، نکلی سفری تاریخیں، جھوٹے دعوت نامے، اور سیاہ راستے۔ وہ لاہور کا ایک "ایجنٹ" تھا، مگر درحقیقت وہ ایک سوداگر تھاجعلی خوابوں کا سوداگر۔اس کے دفتر کی پچھلی دیوار پر تین پرنٹر، دو جعلی مہروں والے اسٹیمپ پیڈ، اور ایک جعلی پولیس کی وردی لٹکی رہتی تھی۔ وہ لوگوں کو صرف ویزہ نہیں بیچتا تھا، بلکہ ان کی امید، ان کا بھروسہ، ان کی زندگی بیچتا تھا۔لیکن تقدیر خاموشی سے جال بُن رہی تھی۔ایف آئی اے لاہور کے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ وِنگ کو ایک خفیہ اطلاع ملی کہ شہر کے وسط میں ایک نیٹ ورک ہے جو بین الاقوامی اسمگلنگ میں ملوث ہے۔ چھاپہ پڑا، دکان کے پیچھے کا دروازہ توڑا گیا، اور منظور اپنی جعلی مہروں والی دنیا میں رنگے ہاتھوں گرفتار ہوا۔اس کے دفتر سے 73 جعلی پاسپورٹ، 24 غیر قانونی دعوت نامے، 13 افراد کی فائلیں، اور تین موبائل فون برآمد ہوئے جن میں بھارت اور افغانستان کے نمبرز سے مسلسل روابط تھے۔جیل میں بیٹھا منظور مسلسل کہتا رہا، "میں تو صرف لوگوں کی مدد کرتا تھا، باہر بھیجتا تھا تاکہ وہ کچھ کما سکیں، بھوکے مرنے سے تو بہتر ہے‘‘۔مگر قانون کے آئینے میں یہ "مدد" نہیں، مجرمانہ سوداگری تھی۔فراز کو کبھی اٹلی نہیں جانا تھا۔ وہ اس دن گرفتاری کے وقت منظور کے دفتر کی سیڑھیوں پر بیٹھا رو رہا تھا۔ ماں کے زیور بیچ چکا تھا، باپ کی امید توڑ چکا تھا۔

اور منظور؟ اب وہ ایف آئی اے کی ریڈ بک میں ایک اور نام تھا۔جعلی خوابوں کا ایک اور سوداگر ۔

تازہ ترین