غزہ کے 40 اسکالر شپ یافتہ طلبہ کو جنگی حالات کی وجہ سے برطانیہ جانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق برطانیہ کی بہترین یونیورسٹیز میں اسکالر شپ حاصل کرنے والے 40 طلبہ کو غزہ میں برطانوی ویزے کے حصول میں جنگ کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔
غزہ کے طلبہ کے حوالے سے آواز اٹھانے والوں نے برطانوی حکومت سے معاملے میں مداخلت کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ ان 40 طلبہ کو برطانیہ آنے کے لیے محفوظ راستہ دیا جاسکے۔
برطانوی حکومت کے عالمی اسکالر شپ پروگرام حاصل کرنے والے 27 سالہ عبداللّٰہ نے جو ڈیٹا سائنس اور آرٹیفشل انٹیلیجنس میں کوئن میری یونیورسٹی سے ایم ایس سی کرنا چاہتے ہیں نے کہا ہے کہ میں اس وقت امید اور ناامیدی کے درمیان پھنسا ہوا ہوں، 2023ء میں مجھے جب میڈیکل لائسنس ملا تو اس کے فوراً بعد غزہ میں جنگ شروع ہوگئی، میں یہاں سے جانا چاہتا ہوں، اس وقت بطور رضاکار غزہ کے ایک اسپتال میں خدمات بھی سرانجام دے رہا ہوں، میرے خاندان میں لوگ زخمی بھی ہیں جو اس صورتحال میں بہت مشکل سے زندگی گزار رہے ہیں۔
عبداللّٰہ نے مزید بتایا کہ میں جانتا ہوں میری مرہم پٹی سے میری قوم کی پریشانیاں ختم نہیں ہوں گی، مجھے ان کے لیے کچھ نیا اور بہتر کرنا ہوگا، جس کے لیے میں نے ڈیٹا سائنس اور آرٹیفشل انٹیلنجنس کی تعلیم کے حصول کے لیے برطانیہ میں اپلائی کیا تھا، میں تعلیم کے حصول کے بعد واپس غزہ آنا چاہوں گا، تاکہ ڈیٹا سائنس کی مدد سے صحت کے نظام میں بہتری لاسکوں۔
اس طرح 31 سالہ ڈاکٹر اسرا جنہوں نے لیورپول اسکول آف ٹروپیکل میڈیسن سے پی ایچ ڈی کرنی ہے، وہ اس سے قبل پبلک ہیلتھ کے شعبے میں ماسٹر بھی کرچکی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ برطانیہ میں پڑھائی کر رہی تھی، وہاں مجھے اچھا تجربہ بھی حاصل ہورہا تھا لیکن پھر جنگ شروع ہوگئی، میں اپنی مرضی سے اپنے لوگوں کی مدد کرنے غزہ واپس آئی تھی، اس وقت میں یہاں بے گھر خواتین لڑکیوں اور بچوں کی مدد کر رہی ہوں۔
اسرا نے کہا کہ میری زندگی کی بھی اہمیت ہے، میں آج کے حالات میں نہیں جانتی کہ اگلے ہفتے میں زندہ بھی رہوں گی یا نہیں، اس لیے میں نے برطانیہ میں اسکالر شپ لینے والوں کے لیے آواز اٹھائی کیوں کہ میری سلامتی سے ان لوگوں کا مستقبل بھی جڑا ہے جو میرے اپنے ہیں۔
28 سالہ خولود جو پیشے کے اعتبار سے ایک ڈینٹسٹ ہیں اور انہوں نے 2020ء میں اپنے بھائی کے ساتھ ایک کلینک کھولا تھا جہاں وہ سماجی خدمت کے طور پر لوگوں کا مفت علاج کرتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں صورتحال بہت خراب ہے یہاں امداد نہیں آرہی ہے، ہزاروں لوگ شہید ہوچکے ہیں، مجھے نہیں معلوم کے میں زندہ بچ سکوں گی یا نہیں، لیکن جانتی ہوں کہ اسکالر شپ پروگرام کا موقع شاید کل میرے پاس نہ ہو، غزہ میں صحت کے شعبے میں دوبارہ بحالی کے لیے مجھے واپس بھی آنا ہوگا۔